از . غلام ربانی مصباحی 
دائرۃ القلم کٹگھرا , ہزاری باغ
رکن . مجلس علماے جھارکھنڈ
Ghulamrabbanimisbahi786@gmail.com

شادی کے بعد ہر جوڑے کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ جلد  اس کی گود ہری بھری ہو، اگر دیر ہو جائے تو لوگوں کے  لاکھ طعنے سننے پڑتے ہیں  پھر سو جتن کرتا ہے، روتا  گڑ گڑاتا ہے ,دعائیں مانگتا ہے اورمنتیں مانگتا ہے تب جا کر دل کی کلی کھلتی ہے اور مانگی  ہوئی مراد پوری ہوتی ہے. اللہ تعالیٰ اس کی گود کو بھردیتا ہے اور مسرت کا سامان مہیا کرتا ہے , اعزہ و اقربا خوشی کے شادیانے بجاتے اور احباب ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں. بلا شبہ بچہ اپنے ساتھ بے شمار مسرتیں لاتا ہے , اس کی پیاری پیاری صورت اور کامنی سی مورت سب کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے , والدین اپنے جگر کے گوشے کو پھولتا پھلتا دیکھ کر باغ باغ ہو جاتے ہیں. والدین ہی پر کیا موقوف , بچوں کے معصوم چہرے اور ان کی بھولی بھالی باتیں کس کا دل نہیں موہ لیتیں , کون ہے جو انھیں ہنستا کھیلتا دیکھ کر خوش نہیں ہوتا . سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی بھی بچوں کی معصوم حرکتوں پر بے ساختہ مسکرا دیتا ہے . جنت کے ان پھولوں کے کھلنے سے ہر گھر میں رونق اور ہر چمن میں بہار آ جاتی ہے , چاروں طرف مسرت کی ہوائیں چلتی اور خوشبو پھیلاتی ہیں غرض کہ ہر طرف فرحت و انبساط کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے .  


ظاہر ہے کہ ایسا بیش بہا تحفہ اور ایسی نعمتیں غیر مترقبہ پاکر کون بد نصیب مسرور نہ ہوگا . 

 مگر مسرتوں کے ساتھ بچہ بے شمار ذمہ داریاں بھی لاتا ہے . 
خوش دلی سے اس کو پالنا , شفقت و محبت کا برتاؤ کرنا , ہمدردی و دل سوزی سے اسے سکھانا، پڑھانا , تدریج سے پسندیدہ عادات ڈلوانا , مختلف مواقع کے آداب بتانا , مہذب طور طریقے سکھانا , عقائد کو نکھارنا , اعمال کو سدھارنا اور اخلاق کو سنوارنا , صحت و عافیت اور ترقی و کامرانی کی فکر کرنا وغیرہ .
یہ سب وہ اہم ذمہ داریاں ہیں جو بچے کے ضمن میں والدین پر عائد ہوتی ہیں . شاید ہی کوئی ایسا باپ ہو جسے ان ذمہ داریوں کا احساس نہ ہو اور وہ ان سے عہدہ برآ ہونے کی خواہش نہ رکھتا ہو . اپنی اولاد پر جان چھڑکنا یہ تو ایک فطری تقاضہ ہے , جان بوجھ کر کون غفلت اور کوتاہی کرے گا باپ ہی تو وہ ہستی ہے جو اولاد کو اپنے سے بھی بڑھ چڑھ کر دیکھنا چاہتی ہے لیکن ایسے خوش نصیب کم ہی ہوتے ہیں جن کی تمنا پوری ہوتی ہے .  کیوں کہ تنہا خواہش ہی سے تو سارے کام نہیں بن جاتے , تعلیم و تربیت کے لیے سلیقہ بھی چاہیے اور غیر معمولی جدو جہد بھی اور جب ان میں کم ہو تو کسی اچھے نتیجے کی توقع کیوں کر ہو سکتی ہے .

بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت میں آج عموماً کیوں ناکامی ہوتی ہے ؟ اس کے مندرجہ ذیل وجوہ ہیں : 
تعلیم و تربیت  بہت ہی صبر آزما اور پتہ ماری کا کام ہے یہ کام جتنی توجہ ، دل سوزی اور جد و جہد چاہتا ہے اس کے لیے عملاً کم ہی لوگ آمادہ ہوتے ہیں ۔ 
عام طور پر بچوں کی عمر اور صلاحیتوں سے کہیں زیادہ ان سے توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں اور جب ان سے بار بار کوتاہیاں اور لغزشیں سر زد ہوتی ہیں اور رفتار ترقی بھی خلاف توقع بہت سست دکھائی دیتی ہے تو اصلاح حال کی طرف سے بد دل ہو کر لوگ عموماً نہ صرف اپنی کوششوں میں کمی کردیتے ہیں بلکہ اپنے روپے اور برتاؤ سے خود بچوں کو بھی مایوسی اور بد دلی کا شکار بنادیتے ہیں اور اس طرح ان میں خود اعتمادی باقی نہیں رہ جاتی ۔ 
پورا معاشرہ بگڑا ہو  ہے ، بڑوں کے غلط نمونے اور ہم جولیوں کی بری صحبت کے غیر محسوس اثرات بچے برابر قبول کرتے رہتے ہیں ۔ جس بچے کا جائزہ لیجیے یہی معلوم ہوگا کہ چند اگر سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں تو متعدد اسے بگاڑنے کے درپے رہتے ہیں ۔ والدین کو دوڑ دھوپ سے فرصت نہیں ملتی ، تو بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دینے کی توفیق کہاں سے نصیب ہوگی ۔ 
مناسب تعلیم و تربیت کے لیے جس صلاحیت اور سلیقے کی ضرورت ہے اکثر لوگ اس سے بے بہرہ ہوتے ہیں ۔ 
والدین کی باہمی تعلقات کی ناخوش گواری ، جدائی ، موت ، عدم موجودگی یا گھر سے دوری وغیرہ بھی بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت میں بہت زیادہ مزاحم ہوتی ہے ۔ 
کتنے لوگ اپنی معاشی پریشانیوں ، علالتوں یا دیگر حقیقی معذوریوی و مجبوریوں کے باعث اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت خود کر نہیں پاتے  ۔ چناں چہ والدین کی معذوری ، کوتاہی اور غفلت کی صورت میں خاندان کے دوسرے افراد اس بار کو برداشت کرنے کے لیے نہ تو خود آمادہ ہوتے ہیں نہ سماج انھیں مجبور پاتا ہے اور نہ خود سماج ان بچوں کا کوئی معقول انتظام کرتا ہے ۔ 
بچوں کو مصروف رکھنے اور ان کے اوقات کو کار آمد بنانے کے لیے دلچسپ تعمری مشاغل یا موزوں کھیلوں وغیرہ کا کوئی معقول انتظام نہیں ہو پاتا ۔ چناں چہ بچوں کی صلاحیتیں غلط رخ اختیار کر لیتی ہیں ۔ 
سماج میں بڑھتی ہوئی فحاشی ، بے حیائی ، اخلاقی بے قیدی ، نظروں کو خیرہ کرنے والے پر فریب مناظر و مظاہر، فحش لٹریچر ، عریاں تصاویر ، گھناؤنے پوسٹروں کی فراوانی ، مخرب اخلاق فلموں ، افسانوں اور ناولوں کی کثرت وغیرۃ عموماً اصلاحی کوششوں پر پانی پھر دیتی ہے ۔ 
بچوں کی شخصیت پر گھر، مدرسہ ، ماحول ، معاشرہ  اور مملکت ہر ایک کا کچھ نہ کچھ اثر پڑتا ہے ۔ گھر کے لوگ فکر کرتے ہیں تو اچھے مدرسے نہیں ملتے ۔ مدرسہ اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے تو اوروں کا تعاون حاصل نہیں کر پاتا ۔ چناں چہ بیش تر اس  تناؤ اور کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ 
تعلیم و تربیت کی طرف غفلت نہ صرف افراد اور کنبوں بلکہ ملک و ملت سب کے حق میں انتہائی خطرناک اور مضر ثابت ہوتی ہے کیوں کہ بچے ناکارہ اور نکمے رہ جاتے ہیں ، ان کی پیدائشی قوتیں اور صلاحیتیں یا تو ٹھٹھر جاتی ہیں یا غلط رخ اختیار کر لیتی  ہیں ۔ طرح طرح کی برائیوں اور بد اعمالیوں میں مبتلا ہو کر  بچے دین و دنیا دونوں تباہ کر لیتے ہیں ۔ آنکھوں کی ٹھنڈک اور بڑھاپے کی لکڑی بننا تو الگ رہا الٹا خار بن کر کھٹکتے اور والدین پر بوجھ بن کر رہتے ہیں  ۔ باپ دادا کی گاڑھی کمائی نہایت بے دردی سے اڑا دیتے ہیں ، خاندان کے چشم و چراغ ہونے کے بجائےاس کا نام ڈبوتے ہیں ۔ اپنے خراب اسوئے سے دین و ملت کو بد نام کرتے ہیں ۔ 
اس کے بر عکس بچوں کی تعلیم و تربیت پر اگر مناسب توجہ دی جائے تو ان کی  صلاحیتیں ابھرتی ، سیرتیں سنورتی ہیں اور دین و دنیا میں انھیں  فلاح و کامرانی نصیب ہوتی ہے ، اس مقصد کی تکمیل میں مدد ملتی ہے جس کے لیے اللہ نے انھیں زمین پر بھیجا ہے ، وہ اپنی انفرادی ، خاندانی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے اہل ہو جاتے ہیں ، وہ اللہ کے صالح بندے ، معاشرے کے بے لوث خادم اور ملک کے وفادار شہری بنتے ہیں ۔ 
غرض کہ صحیح تعلیم و تربیت پر صرف کی ہوئی قوت ، محنت اور دولت ہر ایک کے حق میں نفع بخش ثابت ہوتی ہے ۔ 
بچوں کی تعلیم ایک ایسا موضوع ہے  جس سے کم و بیش ہر ایک کو دل چسپی ہوتی ہے ۔ کسی مجلس میں اس مسئلہ کو چھڑ کر دیکھ لیجیے مرد و عورت ، امیر و غریب ، شہری و دیہاتی ، مسلم و غیر مسلم غرض کہ ہر فرقے کے لوگ متوجہ ہو جائیں گے اور موقع ملا تو ہر ایک اپنی اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور تبصرہ بھی کر دے گا ۔ 
لیکن اس مسئلہ پر لوگوں کا تجزیہ کیجیے ، جتنے منھ اتنی باتیں ہوں گی ایسا محسوس ہوگا کہ ہر ایک کے ذہن میں تعلیم کا ایک الگ مفہوم ہے اور ایک جداگانہ تصور۔۔۔ بمشکل چند افراد ایسے ملیں گے جو کسی ایک مفہوم یا ایک تصور پر متفق ہوں یہاں تک کہ ماہرین تعلیم کے مابین بھی اس ضمن میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ 
اس انتشار فکری کے بھی دراصل متعدد وجوہ ہیں :
نظریۂ حیات کا اختلاف ۔ آدرشوں کا اختلاف ۔ ماحول کا اختلاف ۔ حالات و ضروریات میں اختلاف ۔ شخصیت کی پیچدگی ۔ تعلیمی اسکیموں میں اختلاف ۔ طریق تعلیم میں اختلاف وغیرہ وغیرہ۔

تعلیم کا مقصد :
والدین اپنے بچوں کو عموماً اسی لیے تعلیم دلاتے ہیں کہ وہ پڑھ لکھ کر کمانے کھانے کے قابل ہو جائیں ’’تعلیم برائے معاش ‘‘ ہی ان کا مقصد ہوتا ہے ۔ اگر چہ زبان سے اس کا اعتراف کم ہی لوگ کرتے ہیں ۔ بلا شبہ کمانا کھانا انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ 
اساتذہ بھی تعلیم کا مقصد زبان سے خواہ کچھ بھی بیان کریں مگرعملاً ’' تعلیم براے عملیت ‘‘ہی کے قائل  نظر آتے ہیں  ۔ وہ چاہتے ہیں کہ طلبہ اپنی ساری توجہ لکھنے پڑھنے  اپنی عملی لیاقت بڑھانے اور اچھے نمبروں سے امتحان پاس کرنے پر مرکوز رکھیں ۔ 
تعلیم کے متعدد اور مقاصد  پیش کیے جاتے ہیں جن میں خاص خاص یہ ہیں :
سماج کا بے نفس خادم بنانا ۔ مملکت کا اچھا شہری بنانا۔ شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو ہم آہنگی کے ساتھ سنوارنا ۔ انفرادیت کی نشو نما اور اس لائق بنانا کہ وہ اپنی ذات کا تحفظ کر سکیں ، سماجی تعلقات کو استوار رکھ سکیں ، فرصت کے اوقات کو اچھی طرح گزار سکیں ۔ اخلاق اور سیرت و کردار کو سنوار نا۔ صحت مند جسم میں صحت مند دل و دماغ پروان چڑھانا وغیرہ ۔ 
تعلیم کا  صحیح مقصد اللہ تعالیٰ کا صالح بندہ بنانا ہے ۔ یعنی طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ، ان کے طبعی رجحانات کو صحیح رخ پر ڈالنا اور انھیں ذہنی ، جسمانی ، وملی اور اخلاقی اعتبار سے بتدریج اس لائق بنانا کہ وہ اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں ۔ تعلیم کا یہی صحیح جامع اور بنیادی مقصد ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت دینے کی توفیق خیر سے نوازے.