تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین: تحریک علمائے ہند، جے پور

آج کی ہماری نسل نے دنیا کے جتنے رنگ روپ اور انقلابات دیکھے ہیں، شاید ماضی میں تنہا کسی ایک جنریشن نے اپنی عمر کوتاہ میں اتنے زیادہ انقلابات نہیں دیکھے ہوں گے، ایسا لگتا ہے قدرت قرب قیامت کے اس بے برکت عہد میں ایک ہی جنریشن کو دنیا کا ہر چہرہ دکھا دینا چاہتی ہے۔ 
*ٹیکنالوجی کا انقلاب:-*
اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا نے ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک نئی زندگی جینا سیکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے دو دہائیوں میں ٹیکنالوجی نے اپنے پاؤں اس قدر پسار لیے کہ ہر ہاتھ میں ایک دنیا سمٹی نظر آتی ہے، جہاں ہر گاؤں میں ایک دنیا ہے، وہیں پوری دنیا گلوبل ولیج ہے۔
انٹرنیٹ نے ایک مدت سے بازار میں جا یافتہ چیزوں کو فرسودہ قرار دیا اور ناقابل یقین حد تک دنیا کے باہمی تعلقات و مراسلات اور دنیا جہان کی آسانیوں کو سمیٹ کر رکھ دیا۔ اب موبائل میں ایک کلک کی دوری پر گھڑیاں، کلینڈر، ڈائریاں، کتابیں، اخبار و رسائل، بازار اور مارکیٹنگ کیا کچھ ہے، شاید ہمارے لیے فہرست بنانا بھی آسان نہ ہو۔
اسے ٹیکنالوجی کی کرامت کہیے کہ اس نے ہارڈ دنیا کو سافٹ کارنر دے دیا ہے۔
یہ سافٹ ویئر سسٹم صرف ان پٹ میں ہی نہیں، آؤٹ پٹ میں بھی بھرپور کام کر رہا ہے۔ اب بیکری مالک کو گندھے ہوئے آٹے سے ہاتھ آلودہ کرنے کی ضرورت نہیں، مشین سافٹ ویئر کا ایک کلک بیک جنبش درجنوں طرح کی بیکری سازی کر دیتا ہے اور کپڑے کے تاجر کو نقاشی میں سر نہیں کھپانا پڑتا کیوں کہ چند ہزار کی مشین اس سے بہتر کپڑے ڈیزائن کر سکتی ہے۔
*ای کامرس کا معاشی انقلاب:-*
دنیا کا پہیہ، جس نظام کے گرد گردش کرتا ہے، وہ ہے معاشی نظام۔ اس نظام میں آج تک کی تاریخ کا سب سے زبردست انقلاب اس وقت آیا، جب دنیا میں ای کامرس سسٹم متعارف ہوا۔ نہ کہیں دکان کی ضرورت، نہ ڈیکوریشن کی، نہ لمبے چوڑے خرچوں کی ضرورت اور نہ ملازمین کی تعداد بڑھانے کی، نہ بے پر کی اڑائیے اور نہ دنیا کو بے وقوف بنائیے بلکہ کمپیوٹر کی چھوٹی سی اسکرین کے ذریعے سوتے جاگتے دنیا بھر کے کھلے بازاروں میں 24/7 بڑی آسانی کے ساتھ اپنا سامان بیچیے۔ اگر آپ ایمان دار ہیں تو دنیا آپ کو مال دار بنانے کے لیے بیٹھی ہے اور اگر بے ایمانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو خبردار آپ مارکیٹ میں اپنے قدم جمائے نہیں رکھ سکتے۔ ایمان کی کہیے تو یہ اتفاق دراصل اسلامی مزاج کا حصہ ہے۔ کسی ایک ملک نہیں بلکہ دنیا بھر کے سب سے امیر ترین انسانوں کو پچھاڑنے کے بعد ای کامرس سسٹم نے تمام پرانے تجارتی نظاموں کے بیچ اپنی جگہ اتنی مضبوط کر لی ہے کہ اب اسے پچھاڑ پانا کسی بھی سسٹم کے لیے ممکن نہیں رہا۔
*کورونا کا معاشی بحران:-*
اسے اتفاق گرداننا چاہیے کہ ای کامرس سسٹم کی بدولت دنیا میں سب سے بڑا معاشی انقلاب بھی اکیسویں صدی میں آیا اور حالیہ مہینوں پوری دنیا میں بطور وبا پھیلے ہوئے کورونا وائرس کی وجہ سے لگے لاک ٹاؤن کے بعد دنیا کا سب سے بڑا معاشی بحران بھی اکیسویں صدی کے حصے میں آیا۔
کورونا مہاماری نے پوری دنیا کا چکا جام کر کے سب سے زیادہ بے روزگاریاں پیدا کیں اور غربت کی بدولت شرح جرائم میں بھی خطر ناک حد تک اضافہ کیا، جس کے اعداد و شمار مزید کتنے بڑھ سکتے ہیں، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
*تعلیمی کمپٹیشن:-*
دنیا میں جیسے جیسے بیداری آئی، ویسے ویسے تعلیم کی افادیت و اہمیت کا احساس بڑھتا رہا اور جیسے جیسے یہ احساس بڑھتا رہا، ویسے ویسے تعلیمی سطح پر مقابلہ آرائیاں بڑھتی رہیں۔ دنیا کے ایک بڑے حصے میں یہ تعلیمی کمپٹیشن اس قدر بڑھ گیا ہے کہ بارہا یہ جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے عمومی سطح پر تعلیم کا یہ گراف کبھی نہ تھا اور شاید اسی وجہ سے دنیا کی رفتار بھی دھیمی تھی۔ بہت زیادہ پیچھے کی بات نہ کی جائے تب بھی چند دہائیوں قبل گنتی کے لوگ ہوتے تھے جو خطوط نویسی کر پاتے تھے، یا لکھے ہوئے خط پڑھ سکتے تھے جبکہ آج صورت حال یہ ہے کہ شاید نسل نو میں گنتی کے کم نصیب ہوں، جو یہ کام نہ کر سکتے ہوں۔
تعلیمی ادارہ جات اور ڈگریوں کی ہوڑ کے بیچ عمومی اور سماجی سطح پر بھی معلومات کی ترسیل عام ہوئی ہے، چناں چہ آج ہر چیز کا حل گوگل اور یوٹیوب میں تلاش کیا جانے لگا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ موٹے طور پر روز مرہ پیش آنے والے لگ بھگ مسائل کا حل ان پلیٹ فارمز پر مہیا ہے۔
یہ تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ ان جدید ذرائع نے معلومات کو عام کیا ہے، علم کا کما حقہ فروغ نہیں ہوا بلکہ سند یافتہ اہل علم کی علمی سطح بھی متاثر ہوئی ہے، نوٹ کرنے کے لائق بات یہ ہے کہ معاشی اور تکنیکی انقلاب کے ساتھ اس معلوماتی انقلاب کا سہرا بھی اکیسویں صدی کے سر جاتا ہے۔
*سیاسی اتار چڑھاؤ:-*
موجودہ نسل نے سیاسی اتار چڑھاؤ کے بھی کئی چہرے دیکھے ہیں۔ ہندتوا آئیڈیالوجی کا سیاسی سطح پر ناقابل یقین استحکام۔ بھارت جیسے جمہوری ملکوں میں جمہوریت کا تزلزل اور ہندو راشٹر   کا رجحان اور نیپال/ عرب دنیا میں بادشاہت کی جگہ جمہوریت کا قیام۔ پاکستان کا اسلامائزیشن سے ماڈرن ازم کی طرف بڑھنا اور ترکی کا ماڈرن ازم سے اسلام پسندی کی طرف جھکاؤ۔ ہندی بھائی چارے کے ماحول میں تعصب کی فضا اور امریکی تعصب کے بیچ اسلام کے لیے راہ ہموار ہونا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے حق میں فیصلہ آنا اور آیا صوفیا میوزیم کو مسجد میں بدلنا۔ ہندی میڈیا کا یک طرفہ متعصبانہ رویہ اور اسی کے بیچ انسانیت دوست میڈیا کا مذہب سے بالاتر ہو کر انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے آوازیں اٹھانا۔ یہی صدی وہ ہے جس میں برما جیسے شعلے بھی لپک رہے ہیں اور یہی صدی وہ ہے جس میں حقوق انسانی کی علم بردار تنظیمیں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اسی صدی میں فلسطین کا نام ورلڈ میپ سے اڑتے ہوئے بھی دیکھا گیا اور اسی صدی میں عزرائیل جیسے غاصبانہ ملک کا نام ورلڈ میپ میں درج ہوتے ہوئے بھی ریکارڈ کیا گیا۔ 
ریزرویشن کے نام پر پس ماندہ اقوام کے لیے خصوصی رعایت کے ایشوز بھی سب سے زیادہ اسی صدی میں ڈسکس ہو رہے ہیں اور ٹھیک اسی وقت کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس بھی اسی عہد میں چھینا جا رہا ہے۔
*روحانی اقدار کا احیا:-*
اس صدی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ روحانی اقدار سب سے زیادہ اسی صدی میں غارت ہوئی ہیں اور وہ بھی ان خانقاہوں کے ہاتھوں، جن کی داغ بیل ہی دراصل روحانی اقدار کے احیا کے لیے ڈالی گئی تھی اور یہ ریکارڈ بھی اسی صدی کے نام رہا ہے کہ سچی جھوٹی روحانی اقدار کے احیا کی سب سے زیادہ کوششیں بھی اسی صدی میں ہو رہی ہیں۔
 ذکر و فکر کی مجلسیں جس کثرت کے ساتھ آج سج رہی ہیں، گوکہ ان میں وہ خوبیاں نہ ہوں، جو اگلوں میں تھیں لیکن کمیت کے اعتبار سے شاید اتنی تعداد پہلے کبھی نہ رہی ہو۔
یہاں روحانی اقدار کے احیا سے مراد صرف اسلامی تصوف نہیں بلکہ آرٹ آف لیونگ کے نام پر رائج ہندو مت کے صوفیانہ تصورات بھی ہیں اور ہیلنگ کے نام پر رائج دیگر مذہبی و روحانی خیالات بھی۔
شاید دنیا کے لیے یہ بات باعث حیرت ہو کہ امریکا میں ایک عیسائی خاتون آن لائن ہیلنگ یونیورسٹی چلا رہی ہیں۔
*ہم کیا کریں:-*
مضمون میں درج مشمولات سے کوئی متفق ہو یا نہ ہو، یہ سوال بنتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی نظارے ہم نے دیکھے، یا جو بھی ڈرامے دنیا میں ہو رہے ہیں، ہمیں ان سے کیا حاصل؟
اس سوال کے جواب میں مضمون کے خلاصے کے طور پر عرض ہے: خلق خدا اور اور کائنات رنگ و بو کے جتنے رنگ روپ ہم نے دیکھ لیے ہیں، شاید وہ پرانی نسلوں کو میسر نہ تھے، جن پر تازہ مہر کورونا وائرس نے لگائی ہے، تنہا اس ایک قدرتی آزمائش نے دنیا کو کیا کچھ نہ دکھایا، یہ تاریخ ہی رقم کرے گی۔
انسان اپنی عمر سے زیادہ تجربات کی بنیاد پر بڑا ہوتا ہے اور درج بالا شواہد بتلا رہے ہیں کہ گزشتہ کئی نسلوں اور کئی صدیوں کے مقابلے اس صدی کی نسل کو سب سے زیادہ تجربات ہوئے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ یہ تجربات بجائے خود سامان عبرت بھی ہیں، باعث شکر و امتنان بھی اور ذریعہ تحریک و عمل بھی۔ اگر ان غیر معمولی تجربات، عالمی تغیرات اور قدرتی نظاروں کی روایات کے باوجود اس نسل کے افکار و نظریات اور کرادر و عمل میں غیر معمولی انقلاب نہیں پیدا ہوتا تو شاید یہ اس کی سب سے بڑی محرومی ہو یعنی اکیسویں صدی کا انسان محض اس حیثیت سے کہ وہ اکیسویں صدی کا انسان ہے، اگر پست فکری، تنگ نظری، بد عملی یا کم علمی کا شکار ہے تو اس کا اس صدی میں ہونا ہی اس کے لیے تازیانہ عبرت ہونا چاہیے۔


سکریٹری:- ادارہ قرآن، شیرانی آباد -و- رکن: روشن مستقبل، دہلی