از:محمدابوہریرہ رضوی مصباحی پھول سراے. رام گڑھ. (رکن مجلس علماے جھارکھنڈ)

امت مسلمہ تقریباً اپنی تاریخ کا ڈیڑھ ہزار سال سفر طے کر چکی ہے. اس دوران بہت سے حالات و حوادث سے گزری، اچھے برے تجربات سے دوچار ہوئی، بہت سے اخلاقی و تاریخی عوامل اس پر اثر انداز ہوئے. عروج و زوال کے عبرت ناک حالات بھی پیش آئے. اس گزرے ماہ و سال کا ابتدائی ہزارہ عروج و اقبال سے روشن ہے، جبکہ دوسرا ہزارہ جو گیارہویں صدی ہجری سے شروع ہوتا ہے، وہ آلام و مصائب، مظلومی و بےبسی، شقاوت و بےرحمی کے اندھیروں میں روپوش ہے. پتہ نہیں بےیقینی کے یہ اندھیرے کب تک اس ملت پر مسلط رہیں گے اور اس کی تہذیبی صبح کب روشن ہوگی.
کسی قوم پر نہ بے وجہ زوال آتا ہے اور نہ بےسبب قوم سرفراز ہوتی ہے. اسباب کی اس دنیا میں عدل و اصول ہر قوم کے لیے یکساں ہے. اقوام عالم کے عروج و اقبال اور ناکامی و زوال
کا سبب ہمیشہ داخلی و اخلاقی ہوتا ہے، خارجی فتنے، بیرونی اسباب ومحرکات، ان کی کمزوری وبے راہ روی کا صرف نتیجہء بدہوتے ہیں.
جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو سب سے پہلے اس کے درمیان وہ اصول، اقدار اور عقائد وجہ انتشار بنتے ہیں، جو ان کی قوت کا سر چشمہ، ان کی اجتماعیت کا قوام اور ان کے اتحاد و مرکزیت کا سبب ہوتے ہیں. پھرتو ایساہوتاہے کہ اس کے افکار و عقائد، اس کے افعال و اعمال، اس کے دینی و تہذیبی مظاہر ایسے روایتی، فرسودہ، تخریبی وتباہ کن ہوجاتے ہیں کہ خیر کے تمام سوتے خشک ہوجاتے ہیں،اور جب اس سے بھلائی کی کوئی امید باقی نہیں رہتی، اس کی اصلاح کا کوئی امکان نہیں رہتا، اس کی تہذیب کی کوکھ جب بانجھ ہوجاتی ہے تو قانون فطرت کے مطابق اس کی ایک دشمن طاقت اٹھتی ہے اور فنا کا پیغام بن کر اس کی بساط کو لپ دیتی ہے. اس طرح اس کا وجود کش مکش و مسابقت کی اس دنیا سے ختم کر دیا جاتا ہے. قوم نوح، عاد و ثمود، مسدوم و وعمورہ، بابل و نینوا، یونان و روم، قیصر و کسریٰ اور یہود ونصاریٰ کی تاریخوں میں اس کی مثال دیکھی جاسکتی ہیں.
آج کے حالات پر غور کریں تو ہمارے تعلیمی، فکری و اعتقادی، عملی، تہذیبی و اخلاقی، سماجی، اتحادی ومعاشراتی، سیاسی و معاشی پسماندگی جیسے زوال کے مضبوط عوامل نے ہمیں ترقیاتی دوڑ سے بہت پیچھے کر کےآج ذلت و مفلسی اور اجنبیت کے مقام پر لا کھڑا کیا ہے.
ذیل کے سطور میں ان میں سے کچھ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے :

*تعیلمی زوال* آج کے حالات کو دیکھ کر خون کے آنسو رونا آتا ہے. افسوس ہم نے علم سے رشتہ منقطع کر لیا ہے ہمارے اندر تحصیل علم کی دل چسپی ختم ہوتی جارہی ہے، پسماندہ قوم میں ہمارا شمار ہونے لگا ہے اور تعلمی پسماندگی میں ہم سب سے آگے ہیں. ہم نے دنیا کو علم دیا تھا، مگر اس دولت سے ہم خود محروم ہوتے جارہے ہیں. جبکہ انگریزوں نے ہمارے ہی کتابوں سے مستفید ہو کرترقی و خوشحالی کی راہیں ہموار کرلیں، ہماری وراثت عظمیٰ پر وہ قابض ہو گئے اور ہم سے ہمارا علم چھن گیا. آج مسلمانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے جس کے باعث آج ہم ہرطرف دھتکارے جارہے ہیں. صنعت و حرفت ہرمیدان میں ہماری  حیثیت صفر ہے، غربت و بے کسی کے شکار ہو کر ہم ہر طرف سے دھکے کھا رہے ہیں، جس کا واحد علاج تعلیم ہے، خدا کا شکر ہے کہ اب کچھ تعلیمی بیداری ہم میں آئی ہے. 
*معاشی زوال* معیشت کی اہمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے عیاں ہے. تجارت جو معاشی ترقی و خوش حالی کی ضامن ہے، رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا محبوب ترین پیشہ ہے آپ بذات خود ایک کامیاب تاجر تھے.
 مسلمان پندرہ صدی عیسوی تک دینا کے معاشی، سیاسی، علمی اور تہذیبی قائد رہے، بڑے بڑے تجارتی مراکز قائم کیے، سمندری تجارت کے لیے بندرگاہیں بنائیں جن کے ذریعے دور دراز کے ملکوں میں جاکر تجارت کے ساتھ ساتھ اسلام سے بھی لوگوں کو متعارف کرایا. لیکن مسلمانوں کے علمی، معاشی وسیاسی غلبے میں انحطاط سترہویں صدی کے اوائل سے شروع ہو گیا اور تقریباً دو صدیوں میں مغرب نے بڑی سرعت سے سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی، جس کے باعث ان کی عسکری نے مسلمانوں کے عسکری قوت سے فوقیت حاصل کرلی، اور 1798ء میں جب نپولین نے مصر فتح کیا تھا تب سے لے کر آج تک مسلمانوں کی ہر میدان میں پسپائی ہوتی رہی جو وقت کے ساتھ اور تیز ہوتی گئی. یوں تو آج دنیا میں ایک چوتھائی آبادی مسلمانوں کی ہے، ان کے پچاس سے زیادہ ممالک ہیں، اور گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں عرب ممالک کو اللہ تعالیٰ نے زمین سے تیل کا خزانہ دے کر مالا مال کیا ہے. لیکن کوئی بھی مسلم ملک اس تیل کی دولت کے باوجود حقیقی طور پر خود مختار نہ ہو سکا. یہ ممالک بالواسطہ یا بلا واسطہ مغربی طاقتوں کے حکم و اشارے پر کام کر تے ہیں.
اس وقت امت مسلمہ کا بڑا طبقہ غربت و افلاس، ناداری وبے روزگاری کا شکار ہے، خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت معاشی پس ماندگی میں کی گئی ہے. ہم میں مالدار طبقہ بھی موجود ہے مگر اس کا تناسب تھوڑا ہے. اور غیر مسلموں کے مقابلے میں ناقابل ذکر ہے. وطن عزیز میں ایک لاکھ سے زیادہ ارب پتی لوگ ہیں مگر ان میں مسلمان صرف چند ہیں. مسلمانوں کی اکثریت نادارہے اور بہت سے لوگ خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں. ان کی فی کس یومیہ آمدنی اوسط سے کافی کم ہے، فٹ پاتھ پر سونے والو، کوڑا چننے والوں، گلیوں اور مسجدوں کی سیڑھیوں پر دست سوال دراز کرنے والوں کے اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے. اس غربت کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جہاں زندگی گزارنا دشوار ہو وہاں تعلیم و ترقی کا خواب دیکھنا نا ممکن ہے.
مسلمانوں کو غربت و افلاس کے دلدل سے نکالنے کے لیے نہ تو حکومت ہند نے کوئی مثبت اقدام کیا نہ مسلم رہنماؤں نے سنجیدہ مہم چلائی اور نہ ہی اہل علم نے عام مسلمانوں کا مزاج خود کفالت کا بنایا، نتیجہ یہ ہوا کہ بھیک مانگنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں میں موجود ہے.
اس صورت حال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ صحت اور جوانی کی نعمت ہونے کے باوجود بہت سے لوگوں نے گداگری ہی کو اپناپیشہ بنالیا ہے.
*سیاسی زوال*
 ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد ہی مسلمانوں کی کوئی حکمت علمی نہ بن سکی، تقسیم ہند کے نتیجے میں مسلمانوں کے ایک طبقے نے چوں کہ اسلام کے نام پر ایک آزاد مملکت حاصل کرلی تھی، اس لیے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی ملکی سیاست میں بڑی کم حصہ داری اور عموماً غیر مسلموں کے ہاتھ میں رہی، اور اقتدار میں دور رہنے کی وجہ سے مسلمانوں کا سیاسی شعور کم ہوتا گیا. تو جس طرح ہر سطح پر مسلمان بکھرتے رہے اس سطح پر بھی بکھرتے نظر آئے. مسلمانانِ ہند کی کوئی سیاسی جماعت وجود میں نہ آئی، نہ کوئی سیاسی پلیٹ فارم بن سکاکہ مسلمان اپنا وجود ثابت کر سکے.
ایک زمانہ تھا جب علماے کرام ملکی سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھتے تھے.
موجودہ دور میں سیاست حاضرہ سے اپنا دامن بچائے رکھنا اور بالکل اپنے آپ کو اس سے الگ رکھنا مسلمانوں کے حق میں مفید نہیں، مقام غور ہے کہ بہت سارے غیر اہم مقامات میں مجبوراً ہم کو غیر مسلم سیاست دانوں کا سہارا لینا پڑتا ہے. یہ سیاست سے دور رہنے کا ہی نتیجہ ہے کہ علما کے بارے میں عوام یہ کہتے نظر آتی ہے کہ مولوی حضرات کو سیاست سے کیا تعلق؟ بھلا یہ سیاست کیا جانیں؟ ان کی جگہ توصرف مسجد اور مدرسہ کی چہار دیواری ہے، اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ علما نے اپنے کو مکمل سیاست سے دور رکھا ہے، حالاں کہ علما سے بہتر سیاست کون کرسکتا ہے.
یقیناً آج کی سیاست گندی ہوگئ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اچھے لوگوں نے سیاست سے ہاتھ کھینچ لیا ہے. آج برائی دھیرے دھیرے اچھائی پر غالب ہونے لگی. ہم انصاف کا رونا روتے ہیں، ظلم اور حق تلفی کا راگ الاپتے ہیں، لیکن جب اسے سدھارنے کا موقع ملتا ہے تو ہم اپنے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں. ہم اس بات میں دلچسپی کیوں نہیں لیتے کہ آخر ہمارے سیاسی اور سماجی معاملات کو طے کرنے والے لوگ کون ہوں گے، اقتدار کی کرسی پر کسے بٹھایا جائے جو سماج کو ایک نظریے سے دیکھے. اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کسے بھیجا جائے، جو پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ ہمارے مسائل کو رکھے اور اس پر مثبت بحث کرکے مشکلات کا حل نکالے.
علما کو جان بوجھ کر سیاست سے دور کیا گیا ہے تاکہ من مانی اور بدعنوانی کے راستے کھولے جاسکیں. علما سے یہ کہا گیا کہ آپ حضرات کے لیے یہ مناسب نہیں کہ آپ دینی علوم کے وارث ہیں اور گلی گلی کھومتے آپ کو زیب نہیں دیتا، آپ تو آرام فرمائیں، ہم سب آپ کے لیے اسٹیج سجاتے ہیں، پھر یہ کہ اس میں کتنا جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور آپ مذہبی آدمی ہیں یہ آپ کے لیے مناسب نہیں،ہم خود آپ کے پاس آکر معاملات میں رائے لےلیں گے. اس طرح کی باتوں سے انھیں ایک اہم ذمہ داری سے سبکدوش کردیا گیا اور علما کی عدم شمولیت نے سیاست کا ماحول سخت پرا گندہ کرڈالا.