از قلم: محمد ایوب مصباحی، مراداباد، گروپ ایڈمن ہذا۔
                  بسم اللہ الرحمن الرحیم 
     عزیزانِ گروپ"مشقِ مضمون نگاری"آج ہمارا اس گروپ کا یہ پہلا درس ہے جس کے لیے چند باتیں قبلِ ذکر ہیں۔
    1:-یہ فن ماہ دو ماہ میں ہرگز حاصل نہیں ہوتا، قلمکاروں کے تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ اس میدان میں جتنے زیادہ پرانے ہوتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی ان کی تحریروں میں سدھار آتا چلا جاتا ہے اس لیے تادیر اس کی کوشش کرتے رہنا ضروری ہے۔
     2:- اس فن کا تعلق قواعد سے کم اور اربابِ لوح و قلم کے استعمال سے زیادہ ہے لہذا اس کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ عصرِ حاضر کے ماہر مصنفوں اور قلمکاروں کی تحریروں کا مطالعہ کیاجائے،  اس کے لیے آپ زیادہ سے زیادہ حضرت علامہ محمد احمد مصباحی سابق پرنسپل جامعہ اشرفیہ مبارک پور، مولانا نفیس احمد مصباحی استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور، شکیل احمد شمسی، مولانا مبارک حسین مصباحی، ایڈیٹر ماہنامہ اشرفیہ، وغیرہ کی کتابوں اور تحریروں کو پڑھیں اور ان کا اندازِ بیان، الفاظ کا استعمال دیکھیں اور اس سے استفادہ کریں روزنامہ شانِ سدھارتھ، الحیات، اور انقلاب وغیرہ کا خوب مطالعہ کریں ۔
    3:-مضمون لکھتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ زائد الفاظ کا استعمال نہ ہو جیسے ہم نے کہا: "میں دکان پر گیا، وہاں سے دو کلو آٹا خریدا، اور گھر لے کر آیا"؛ اسے ہم ایک جملے میں یوں بھی کہ سکتے ہیں:"میں دکان سے دوکلو آٹا خرید کر لایا" اس جملے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے کم الفاظ استعمال ہوئے اور مفہوم بھی ادا ہوگیا۔
     4:-مضمون نگاری میں دورِ حاضر کے قلمکاروں کا اعتبار ہے اس لیے کہ استعمال ہر دور میں بدلتا رہتا ہے، جیساکہ اس کا اشارہ ماقبل میں کیا بھی جاچکا
 ہے۔ مثلا آپ الجامعۃ الاشرفیہ کی مطبوعہ قدیم کتابوں میں لفظ "مبارکپور " مبارک اور پور ضم کرکے لکھا ہوا پائیں گے اور جدید مطبوعہ کتابوں میں "مبارک پور "مبارک اور پور الگ الگ لکھا پائیں گے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پہلا والا بلکل غلط ہے لیکن رائج املا اس وقت دوسرا والا ہے تو مضمون نگار کے لیے یہی مناسب ہے۔ اسی طرح لفظِ "لئے" قدیم املا میں ہمزہ کے ساتھ ہے اور جدید املا میں "لیے" یاء کے ساتھ رائج ہے تو یہی صحیح مانا جائے گا کہ اب اربابِ لوح و قلم اسے ہی اپنائے ہوئے ہیں۔
       الفاظ کو لکھنے کے کچھ قواعد بھی ہیں پہلے ہم مفرد لفظ کے لکھنے کے قواعد بیان کریں گے اس کے بعد مرکب پھر جملوں کے درمیان قومہ، فل اسٹاپ، سکتہ، سوالیہ نشان کے استعمال کے قواعد کا ذکر کریں گے۔ انشاء و املا نگاری کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ ہے:
1:-"ہ"دو طرح کی ہوتی ہے، ہاے مخلوط اور ہاے غیر مخلوط۔ ہاے مخلوط دوچشمی والی "ھ" کو کہاجاتا ہے اور اس کا استعمال غیر مستقل وغیر منفرد ہوتا ہے اور یہ اپنی آواز دوسرے حرف کے ساتھ مل کر ظاہر کرتی ہے جیسے پھل، کٹھل، کھیت، کھرچنا، جھیل، گھر وغیرہ ۔ اس کا استعمال ہمیشہ دوچشمی والی "ھ"کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اور دوسری ہاے غیر مخلوط اس کا استعمال مستقل اور منفرد ہوتا ہے اور یہ اپنی آواز الگ ظاہر کرتی ہے جیسے چہل، پہل، مہک ،کہرام، کہنہ اور کہانی وغیرہ اس کے استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ لٹکن والی "ہ" سے ہی لکھا جاتا ہے۔لہذا واضح ہوگیا کہ کٹھل کو کٹہل لکھنا اور چہل کو چھل لکھنا غلط ہے۔
     جب آپ یہ سمجھ گیے کہ ہاے مخلوط کسی دوسرے حرف سے مل کر ہی اپنی آواز ظاہر کرتی ہے تو یہ بھی سمجھ گیے ہوں گے کہ ہاے مخلوط کبھی بھی شروع میں نہیں آئے گی اس لیے کہ اس سے پہلے کسی حرف کا ہونا ضروی ہے جس سے وہ مل سکے لہذا وہ الفاظ جن کی ابتدا "ہ " سے ہوتی ہے وہ ہمیشہ لٹکن والی "ہ"سے ہی لکھے جائیں گے۔
"ہ"سے شروع ہونے والے لفظوں میں صحیح اور غلط املا کا فرق
      غلط.                                 صحیح
1:-  ھے.                                  ہے
2:-  ھوا.                                 ہوا
3:- ھندوستان.                        ہندوستان
4:- ھَوا.                                  ہوا
5:- ھم.                                   ہم
6:- ھیولی.                             ہیولی
تجھ کو،  مجھ کو 
     یہ دراصل "تو"اور"میں"کی حالتِ مفعولی میں محرف شکلیں ہیں ان کا املا اس وقت ہاے مخلوط کے ساتھ "تجھے" اور "مجھے" رائج ہے لہذا اسی کے ساتھ لکھنا چاہیے۔
کتبہ:محمد ایوب مصباحی دارالعلوم گلشنِ مصطفی، بہادرگنج، مراداباد یوپی