چینی بائیکاٹ کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے سرکار!!!
کتبہ:محمد ایوب مصباحی، استاذ دار العلوم گلشنِ مصطفی، بہادر گنج، سلطانپور، مراداباد، یوپی، ہند۔
رابطہ نمبر:8279422079
30/جون، 2020،بروز منگل
آج مورخہ 30/جون2020 ء بروز منگل کو جب میں صبح کو بیدار ہوا عادت کے مطابق روزنامہ شانِ سدھارتھ موبائل میں موجود واٹس ایپ کے ایک گروپ "علم اور علما" سے ڈاؤنلوڈ کرکے مطالعہ کیا اور ملک بھر میں چل رہے واقعات کی معلومات فراہم کی، جب ہماری نظر صفحہ اول پر پڑی تو ایک ہیڈنگ یہ نظر آئی"حکومت نے چین کے 59/ایپ پر پابندی لگائی" جس سے دل میں ایک خوشی کی لہر سی دوڑگئی۔ اور خوشی کیوں نہ ہو! جب کہ یہ اقدام چائنہ کے غیر قانونی طور پر سرزمینِ ہند میں متنازعہ زمین پر قبضے کے بابت تھا جس کا تسلسل تقریبا تین ماہ سے جاری ہے، اس سے قبل ہندوستانی اعلی افسران و حکام نے چین کو ہر محاذ پر سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن چین اپنے ناپاک ارادوں سے باز نہ آیااور اس قول "دل ہے کہ مانتا نہیں"کی عملی تصویر پیش کرتارہا،اور روز بروز اپنی مداخلت بڑھاتا رہا تو اس پر ہندوستان کی عوام خاصی مشتعل ہوئی اور چینی سامانوں کے خلاف یہ مہم تیزی سے چلائی کہ اس کا ہند سے کاروبار پر بلکل قدغن لگا دیا جائے جس پر وزارت نے 59/چینی موبائل ایپ پر پابندی عائد کردی جس کے لیے وزیراعظم نریندر مودی قابلِ مبارکباد ہیں۔ یہاں ایک بات اور واضح کردوں کہ جن ایپس پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں شیرٹ، لائک، بیگواور ٹک ٹاک جیسے موبائل ایپ شامل ہیں ان میں آخر الذکر ایپ سے ملت کا بہت خسارہ بھی ہو رہا تھا اس لیے یہ ملک کے ساتھ ساتھ اسلام کے فیور میں بھی ہے ۔
لیکن آج جب کہ مرکزی حکومت بلکل پوری طرح سے ناکام ہے کہ سیکڑوں مسائل درپیش ہیں تو یہ کہیے کہ 59/ایپ پر پابندی کے بہانے مرکزی حکومت نے کہیں نہ کہیں اپنی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کی ہے، ہاں اگر واقعی چینی معیشت کو متاثر کرنا مقصود تھا تو ان فضول ایپس کے بجائے ان ایپس پر پابندی عائد کرنا چاہیے تھا جو چین کی معیشت پر اثر انداز ہوتے اس کے لیے چین کی ہندوستان میں چل رہی ایجنسیوں کو بند کرنا چاہیے تھا جیسے paytm, sweggy, ola وغیرہ
اب یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ 59/کا عدد دکھاکر یہ جتلانے کی کوشش کی گئی کہ ہم نے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اور ایک بار پھر حکومت نے اپنے اندھ بھکتوں کو میٹھی نیند کی گولی دینے کی کوشش کی ہے، حالاں کہ اگر چین کی کمر ہی توڑناہندوستان کا ہدف تھا تو 59کے بجائے صرف دو ایپ paytmاور ola ہی بند کردیا جاتا تو چین کسی حد تک اقتصادی زبوں حالی کا منہ دیکھتی لیکن وہ کہتے ہیں نا جب مارنا نہیں ہوتا تو ڈنڈا اٹھاتے ہیں!
لیکن یہ سب کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے گنجائش کہاں چھوڑی ہے! پہلے ہی ملک میں تقریبا 21کمپنیاں بند کی جا چکی ہیں جو موجودہ سرکار میں سب سے بڑی تعداد ہے آج تک جو بھی سرکار اقتدار میں آئی اس نے اتنی بڑی تعداد میں کمپنیاں، ایجنسیاں، اور فیکٹریاں فروخت نہیں کیں جس قدر اس سرکار میں کی گئیں، در اصل موجودہ سرکار منفی سوچ رکھنے والی ہے، اوراس سے اس کے سوا امید بھی کیا کی جا سکتی ہے! جب سے اقتدار میں آئی ہےاس کی منفی سوچ کا اثر کچھ اس طرح شروع ہوا تین طلاق بند، کرنسی بند، بابری مسجد بند، پلس بیما کمپنی بند،لاک ڈاؤن یعنی انسان گھروں میں بند، مال ومتاع کی بیرون ممالک سے حمل و نقل بند، مسجدیں بند، مدارس بند اسکول و کالج بند، نائٹ کلب، سنیما، اور اب چائنیز ایپ بند۔
ہم اس کے مخالف نہیں کہ یہ ایپ بند کیوں ہوئے بلکہ ہم تو یہ باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ فیصلے ایسے ہونے چاہیے کہ اپنوں کو اگر فائدہ بھی نہ ہو تو نقصان بھی نہ ہو اور دشمن کو خسارہ بہر حال ہو اب تین طلاق، بیرون ممالک سے سامان کی حمل ونقل کے بند کرنے میں ملک کا کون سا فائدہ ہوا یا 59/ ایپس کو بند کرنے میں دشمن کا کون سا نقصان ہوگا۔
یقینا دشمن کو فائدہ اور ملک کو خسارہ انہیں غیر مناسب فیصلوں کی وجہ سے ہوا ہے جس کا نتیجہ ملک کی اقتصادیت و معیشت کے بحران پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں روز بروز اضافے، سڑکوں پر دم توڑتے سیکڑوں مزدوروں اور اب تک سلب ہوئے لاکھوں لوگوں سے ان کے روزگار کے شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں
جب علم ہی نہیں تو عمل کیا ہوگا
جس بیاباں میں شجر ہی نہیں تو پھل کیا ہوگا
یہ سب جاہل لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار دینے کا نتیجہ ہے! خدا خیر کرے! اور اپنے حبیب مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے میں ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔آمین
کتبہ:محمد ایوب مصباحی، استاذ دار العلوم گلشنِ مصطفی، بہادر گنج، سلطانپور، مراداباد، یوپی، ہند۔
رابطہ نمبر:8279422079
30/جون، 2020،بروز منگل
0 تبصرے
شکریہ ہم تک پہنچ نے کے لیے