تحریر: خلیفہ حضور تاج الشریعہ 
حضرت علامہ غلام مصطفےٰ نعیمی
جنرل سیکریٹری تحریک فروغ اسلام دہلی

پیش کش : محمد زبیر رضا

پس منظر
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ "حساس مسائل کو عوامی اجلاس میں بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے کہ نفع کم نقصان زیادہ ہوتا ہے۔"
لیکن کئی بار بادل نخواستہ بھی ایسے اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔حالیہ معاملے کا پس منظر بھی کچھ ایسا ہی ہے،سیفی علی نامی ایک رافضیہ عورت نے ٹی وی شو میں اپنے ناقص عدالتی نظام پر تنقید کرتے ہوئے یہ گستاخانہ بیان دیا:
’’ہماری Judiciary(نظام انصاف)  کا بیڑا غرق اسی دن ہوگیا تھا جس دن فاطمہ زہرا انصاف لینے دربار (صدیقی) گئیں اور ان کو انصاف نہیں ملا اور ان کو جھٹلایا گیا۔‘‘

اس گستاخانہ بیان کی تائید میں دیگر رافضیوں نے بھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دشمن زہرا قرار دیتے ہوئے نہایت غلیظ،گھٹیا اور بازاری زبان استعمال کی۔
اسی ملعونہ عورت اور اس کے ہم نواؤں کے جواب میں منعقدہ"شان مولیٰ علی سیمینار" میں جلالی صاحب نے نہایت تحقیقی خطاب کیا۔جس میں آپ نے دلائل قاہرہ سے روافض کا علمی رد کیا۔کئی مہینوں تک کسی کو بھی گستاخی کا شائبہ تک نہیں گزرا لیکن جب مذکورہ جملے کو سیاق و سباق سے ہٹا کر"گستاخی زہرا" کیپشن کے ساتھ وائرل کیا گیا تو ہنگامہ شروع ہو گیا جو بڑھتے بڑھتے یہاں تک آپہنچا ہے۔
پس منظر کی اس بنیادی تفصیل سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ جلالی صاحب نے از خود یہ حساس بحث شروع نہیں کی بلکہ روافض کے جواب اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دفاع میں آپ کو اس حساس عنوان پر خطاب کرنا پڑا۔چونکہ یہ الزام ٹی وی جیسے عوامی فورم پر لگایا گیا تھا جس سے عوام اہل سنت میں سخت اضطراب تھا۔عوامی خلجان کو دور کرنا اور عقیدہ اہل سنت کا دفاع کرنا ضروری تھا اس لیے حساسیت کے باوجود اس عنوان پر عوامی اجلاس کیا گیا تاکہ عوام اہل سنت روافض کی فریب کاریوں سے محفوظ رہ سکیں۔

*مطالبہ فدک: ایک زاویہ نظر*

باغ فدک مدینہ سے 30؍میل دور خیبر کے مقام پر واقع ہے۔فدک مال فئے کے طور حضور ﷺ کے تصرف میں تھا جس کی آمدنی آپ ضرورت مندوں، مندوبین اور اپنے اہل خانہ پر خرچ فرمایا کرتے تھے۔آقا علیہ السلام کی حیات ظاہری تک وہ باغ آپ کے زیر تصرف رہا۔آقائے کریم ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد سیدہ زہرا نے امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس کا مطالبہ فرمایا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حدیث ’’لا نورث ما ترکناہ صدقۃ۔‘‘بیان کرکے واضح کردیا کہ حضورﷺ کی ملکیت تقسیم نہیں ہوتی بلکہ امت کے حق میں صدقہ ہوتی ہے،اس لیے اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔
دونوں مواقف پر نظر ڈالنے سے پہلے چند اہم باتیں ذہن نشیں کرلیں جو تفہیم معاملہ میں معاون ثابت ہوں گی۔
🔹کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ بوقت مطالبہ یا اعلان مسئلے کی مکمل تفصیلات صاحب اجتہاد کی نگاہ سے پوشیدہ رہتی ہیں اور وہ اپنے فہم کے مطابق اجتہاد کرتے ہیں ایسی صورت میں اپنے مطالبے اور ادعا کے وقت صاحب اجتہاد اپنے فہم اور دلائل کی بنیاد پر مبنی بر صواب ہی ہوتے ہیں لیکن جب معاملے کے مخفی گوشے سامنے آتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کا نہیں بلکہ دوسرے مجتہد کا فہم واجتہاد مبنی بر صواب ہے،اس کی مثال میں سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مہر کی تحدید والا واقعہ اہم نظیر ہے جب آپ نے معاشرے میں مہر کی بڑھتی ہوئی رسم کے سد باب کی خاطر چالیس اوقیہ درہم سے زیادہ مہر مقرر کرنے پر پابندی لگادی اور خلاف ورزی کی صورت میں اضافی رقم کو بیت المال میں جمع کرنے کا اعلان فرمایا۔
آپ کے اعلان واجتہاد کے خلاف ایک ضعیفہ خاتون نے آوازاٹھائی اورمسئلہ کی مکمل تفصیل رکھتے ہوئے کہا قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اٰتَیۡتُمۡ  اِحۡدٰہُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡہُ شَیۡئًا (سورہ نساء۲۰﴾)
’’اور اسے [مہر میں]ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔‘‘

ضعیفہ نے اس آیت کی رو سے ثابت کیا کہ مہر کی اکثر مقدار پر پابندی لگانا قرآن عظیم کی آیت کے خلاف ہے۔
اپنے اعلان کے وقت حضرت عمر کے ذہن میں مہر کے بیجا استعمال روکنے کی بات تھی لیکن ضعیفہ کے اجتہاد سے انہیں مسئلے کی مکمل تفصیل کا علم ہوا تو آپ نے وسعت قلبی کے ساتھ اعتراف کرتے ہوئے فرمایا:
اصابۃ المرأۃ واخطا عمر۔
"عورت نے درست کہا اور عمر سے خطا (اجتہادی) ہوئی۔"(تفسیر قرطبی ج:۵ ؍ص ۹۹ دارالکتب المصریہ)

یہاں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ یہ وہ سیدنا عمر فاروق اعظم ہیں جن کی رائے وحی قرآنی کے سب سے زیادہ مطابق ہوتی تھی لیکن حالیہ معاملے میں ان کے ذہن سے مہر کا یہ گوشہ مخفی رہا جسے ضعیفہ نے پیش کیا۔اب قضیہ فدک کو سمجھتے ہیں،قضیہ فدک میں دو باتیں اہم ہیں:
۱؍سیدہ کائنات رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کرنا۔
۲؍مطالبے کے برعکس سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عدم وراثت کا فیصلہ کرنا۔

قضیہ فدک میں ایک طرف سیدہ فاطمہ کا اجتہاد تھا، دوسری جانب سیدنا صدیق اکبر کا اجتہاد تھا۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اجتہاد کے مطابق وہ باغ فدک کی وارثہ قرار پاتیں۔
صدیق اکبر کا اجتہاد اس کے برخلاف تھا کہ نبی اکرم ﷺ کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوگا۔چونکہ دونوں پہلو ایک دوسرے کے برعکس ہیں اس لیے بہت سارے لوگ شش وپنج میں پڑ جاتے ہیں اور ہر دوعظیم شخصیات کے مابین تقابل کرکے کسی ایک کی کسر شان کے مرتکب ہوتے ہیں اور عاقبت برباد کرتے ہیں۔اہل سنت کا موقف اعتدال پر مبنی ہے جس کے تحت نہ کسی شخصیت کی کسر شان ہوتی ہے نہ توہین،امام ابن ہمام کمال الدین محمد فرماتے ہیں:
’’کل مجتہد مصیب والحق عند اللہ واحد۔
(فتح القدیر ج۷؍ص ۳۴۷ دارالفکر بیروت)
’’ہر مجتہداجر کا حق دار ہوتا ہے اور اللہ کے نزدیک حق ایک[موقف]ہوتا ہے۔‘‘

یعنی جب دو مجتہدوں کے موقف ایک دوسرے کے برخلاف ہوں تو عند اللہ ایک ہی موقف درست ہوتا ہے لیکن تلاش خیر اور اخلاص نیت کی وجہ سے دونوں مجتہد اجر وثواب کے حقدار ہوتے ہیں۔
سیدہ فاطمہ زہرانے آیت میراث کے حکم عام کے تحت باغ فدک کا مطالبہ کیا۔آپ کا خیال تھا کہ آیت میراث "یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ  اَوۡلَادِکُمۡ" میں حضور ﷺ بھی شامل ہیں بایں وجہ تنہا بیٹی ہونے کے ناطے وہ نصف حصہ کی حقدار تھیں۔اپنے استدلال کے مطابق سیدہ اپنے مطالبے میں حق بجانب تھیں لیکن سیدہ کا اجتہاد مسئلہ وراثت کے محض ایک گوشے پر مرکوز تھا۔معاملے کا دوسرا پہلو، ان پر منکشف نہ تھاجب سیدہ نے مطالبہ کیا تو حضرت صدیق اکبر نے حدیث رسول پیش کرتے ہوئے معاملے کا دوسرا پہلو،سیدہ کے سامنے رکھا۔یہ وہ پہلو تھا جو سیدہ کے علم میں نہیں تھا ورنہ آپ کا اجتہاد پہلے سے مختلف ہوتا۔
چونکہ دونوں اجتہاد ایک دوسرے سے متعارض تھے، ان میں سے کوئی ایک اجتہاد ہی مبنی بر صواب ہوسکتا تھا جیسا کہ امام ابن ہمام کے حوالہ سے گزرا،اب ہم جیسے گناہ گاروں کی اوقات نہیں کہ ان عظیم المرتبت شخصیات کے مابین محاکمہ کریں، اس لیے ہم ان عظیم ترین ہستیوں کے طرز عمل سے ہی معلوم کرتے ہیں کہ کس کا اجتہاد مبنی بر صواب تھا؟
جب ہم واقعہ کی تفصیل دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مطالبہ فدک کے بعد جب سیدہ فاطمہ کے سامنے صدیق اکبر کا اجتہاد آیا تو آپ نے اپنے اجتہادی مطالبے کو ترک کرتے ہوئے صدیق اکبر کے اجتہاد کو تسلیم کیا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مبارک عمل ہی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سیدنا ابوبکر کا اجتہاد ہی مبنی بر صواب تھا ورنہ سیدہ فاطمہ ہرگز اپنے اجتہادی مطالبے سے دست بردار نہ ہوتیں۔خاتون جنت نے اپنے مبارک طرز عمل سے صدیق اکبر کے اجتہاد پر درستی کی مہر ثبت کردی۔اور اپنے بابا سید عالم ﷺ کے اس ارشاد گرامی کو سچ ثابت کردیا جس میں آپ ﷺ فرماتے ہیں:
ان الله یکره فوق سمائه ان یخطا ابوبکر۔[تاریخ الخلفا، رواہ الطبرانی 1/42 ]

"اللہ تعالیٰ آسمان پر اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ ابوبکر سے خطا ہو۔"

 اب اگر کوئی لفظوں کے ہیر پھیر سے صدیق اکبر کے اجتہاد کو مبنی بر صواب نہیں مانتا تو وہ نہ صرف صدیق اکبر بلکہ جملہ خلفائے راشدین کو ظالم وغاصب بھی مانتا ہے حتی کہ حضرت فاطمہ کی مخالفت کا بھی مرتکب بھی ہوتا ہے۔
(جاری)

25 ذوالقعدہ 1441ھ
17 جولائی 2020 بروز جمعہ