تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
    مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

دو دن سے یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ انٹرنیٹ کے مشہور سرچ انجن گوگل نے اپنے سرچ بار سے فلسطینی ریاست کا نقشہ ہٹا دیا ہے،گوگل پر فلسطین کا نقشہ تلاش کرتے ہیں تو فلسطین کی بجائے اسرائیل نظر آتا ہے،اور فلسطینی حدود کو اسرائیلی نقشے میں دکھایا جارہا ہے۔گوگل کی اس حرکت کے خلاف شکایت کی گئی تو گوگل انتظامیہ نے کہا کہ انہوں نے کبھی فلسطین کو اپنے نقشے میں شامل ہی نہیں کیا تھا۔
گوگل کی جس حرکت پر آج ہنگامہ برپا ہے وہ آج کی شرارت نہیں ہے، 2019میں ہی گوگل انتظامیہ نے گوگل ارتھ (Google Erth) اور گوگل میپ (Google Map) پر تبدیلی کر کے فلسطینی علاقوں کو اسرائیلی نقشے میں شامل کر دیا تھا لیکن اس وقت کسی کا دھیان نہیں گیا اور بات دبی رہی لیکن اب شکایت عام ہوئی تو گوگل کی شرارت علم میں آئی ہے !!

اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے بعد بچے ہوئے فلسطین کے 2 حصے ہیں:
1-؍جارڈن سے ملے ہوئے ایک بڑے حصے کو West Bank یعنی مغربی کنارہ کہا جاتا ہے۔اس حصے میں یروشلم اور نابلس جیسے فلسطینی شہر آباد ہیں۔
2؍فلسطین کا دوسرا حصہ غزہ پٹی پر مشتمل ہے۔یہ علاقہ مصر سے متصل اور ساحل سمندر کے قریب ایک پٹی(Strip)کی شکل میں ہے،اسے غزہ پٹی(Gaza Stirp) کہا جاتاہے۔
ابھی تازہ نقشے میں جہاں west Bank لکھا ہے ،پہلے جب گوگل میپ دیکھا جاتا تھا تو West Bank کے پاس ہی Palestine (فلسطین) لکھا ہوتا تھا،جو نقشے کو زوم کرنے پر نظرآتا تھا،مگر اب زوم کرنے پر بھی صرف west Bank لکھا نظر آتا ہے،فلسطین کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔البتہ نقشے میں west Bank کی سرحدی حدبندی اب بھی نظر آرہی ہے۔
یہ بات بھی اپنے آپ میں کسی عجوبے سے کم نہیں ہے کہ80 سال پہلے تک اسرائیل نام کا محلہ تک دنیا کے کسی حصے میں موجود نہ تھا ۔پوری دنیا میں در بدر پھرنے والے یہودیوں کو فلسطین میں جائے پناہ نصیب ہوئی۔اپنی امن پسند طبیعت کے تحت مسلمانوں نے یہودیوں کو اپنے وطن میں آباد ہونے کی اجازت دی۔لیکن اپنی شرانگیز فطرت اور اہل مغرب کی سازشوں کے نتیجے میں 1948میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیل نامی ملک بسا دیا گیا۔ہٹلر کے مظالم،ہولوکاسٹ اور اپنی مظلومیت کا رونا رونے والے یہودی آج احسان فراموشی اور ظلم وزیادتی کی نئ تاریخ رقم کر رہے ہیں لیکن پھر بھی "مہذب دنیا" انہیں ظالموں کا ساتھ دے رہی ہے !!

فلسطین قدیم ترین ملک ہے۔اس کا محل وقوع لبنان اور مصر کے درمیان تھا جس کے بڑے حصے پر اب اسرائیلی ریاست بنی ہوئی ہے۔ اب سے 73 سال پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج گوگل انتظامیہ کہتی ہے کہ اس نے کبھی فلسطین کو ریاست کے روپ میں اپنے نقشے میں شامل ہی نہیں کیا یعنی جو ملک صدیوں سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے اسے ریاست کے طور پر شامل نہیں کیا جاتا لیکن جس ملک کو ناجائز طور بسایا گیا،جسے آج بھی دنیا کے کئی ممالک تسلیم نہیں کرتے،اس ملک کو نہ صرف جگہ دی جاتی ہے بلکہ باقی ماندہ فلسطینی علاقے بھی اسی ملک کے نقشے میں دکھائے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے فلسطین کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ یہ ان کا قبلہ اول رہا ہے۔ارض فلسطین میں بڑی تعداد میں انبیاے کرام مدفون ہیں۔خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق اعظم کے دور خلافت 15ھ؍637ء میں فلسطین اسلامی ریاست کا حصہ بنا۔اسی سفر کے دوران انسانی مساوات اور عدل فاروقی کا وہ عظیم الشان واقعہ بھی وجود میں آیا جب دوران سفر کچھ وقت کے لیے آپ اونٹنی پر سوار ہوتے اور غلام پیدل چلتا اور بعد میں غلام کو اونٹنی پر سوار کرتے آپ اونٹنی کی لگام تھام کر چلتے۔جب فلسطینی سرحد قریب آئی تو حسن اتفاق سے غلام کے سوار ہونے کی باری تھی،غلام نے ہرچند منت کی، امیر المومنین!
رؤسائے شہر موجود ہوں گے،آپ کا یوں اونٹ کی رسی تھام کر پیدل چلنا مناسب نہ ہوگا لیکن آپ فلسطین میں اسی شان سے داخل ہوئے کہ غلام اونٹنی پر سوار تھا اور آپ رسی تھامے پیدل چل رہے تھے۔اسی منظر کو دیکھ صلیبی پکار اٹھے تھے کہ یہی وہ شخص ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں آیا ہے،فوراً ہی ساری چابیاں حضرت عمر کو سونپ دی گئیں اس طرح بغیر قتل وقتال کے یہ ملک مسلمانوں کی ملکیت میں آگیا۔چھٹی صدی ہجری میں یہاں صلیبی حکومت قائم ہوگئی۔اقتدار ملتے ہی صلیبی افواج نے 70؍ہزار مسلمانوں کو قتل کیا۔اس کے بعد538ھ؍1189ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے فلسطین کو دوبارہ فتح کیا اور صلیبی قبضے سے آزاد کرایا۔بعدہ یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کے تحت آگیا۔
18ویں صدی کے اختتام تک سلطنت عثمانیہ انتہائی کمزور ہوچکی تھی اس لیے یہودیوں نے سلطان عبدالحمید کو بڑی رقم کا لالچ دے کر کہا کہ وہ فلسطینی علاقہ یہودیوں کے حوالے کردیں بدلے میں وہ خلافت کے سارے قرضے ادا کردیں گے۔جواب میں سلطان نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر انہیں دکھایا اور کہا،اگر فلسطین کا اتنا حصہ بھی تم لینا چاہوگے تو نہیں ملے گا۔سلطان عبدالحمید کے انتقال کے بعد سلطنت عثمانیہ مزید کمزور ہوئی اوریہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوئی،قیام اسرائیل میں تین واقعات نہایت اہم ثابت ہوئے:
1-ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام،جس سے انہوں نے پوری دنیا میں اپنی مظلومیت کا پروپیگنڈہ پھیلایا۔
2-فلسطین کا برطانوی تحویل میں آنا۔
3-خلافت عثمانیہ کا خاتمہ،جب تک خلافت قائم تھی یہودی عزائم پورے نہیں ہوسکتے تھے لیکن پہلی عالمی جنگ (1914-1918) نے سلطنت عثمانیہ کو انتہائی کمزور کر دیا تھا جس کے باعث بہت سارے علاقے ہاتھ سے نکل گئے،انہیں علاقوں میں فلسطین بھی شامل تھا جو 1917ء میں سلطنت برطانیہ کی تحویل میں آیا اور انگریزوں نے یہاں یہودی ریاست بسانے کا اعلان کیا۔1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کرکے ایک عرب اور ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔برطانیہ نے 1948 میں اس  علاقے سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں اس طرح 14؍مئی 1948 کو دنیا کے نقشے پر اسرائیل نام کی ریاست وجود میں آئی۔قرارداد کے مطابق اسرائیل کے ساتھ ہی آزاد فلسطین کا قیام بھی ہونا تھا لیکن سازشاً ایسا نہیں کیا گیا۔جس کی وجہ سے آج بھی فلسطین ایک آزاد ملک کا درجہ پانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے جبکہ اسرائیل عالمی طاقتوں کی شہ پر اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ظالمانہ طور پر فلسطینی علاقوں پر قبضے کرتا جارہا ہے۔
پوسٹ کے ساتھ شئیر کردہ دوسرے نقشے کو بغور دیکھیں،اس میں چار تصویریں پیش کی گئی ہیں،پہلی1946کے فلسطین کی ہے،جب ساری زمین فلسطین کی تھی۔تصویر کا دوسرا حصہ1947ء کا ہے جب اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔تقسیم کے بعد بھی فلسطینی رقبہ اسرائیل کے آس پاس ہی نظر آتا ہے۔تیسری تصویر1949تا 1967 کے درمیان کی ہے،جب اسرائیل نے آہستہ آہستہ فلسطین پر قبضہ جمانا شروع کیا۔چوتھی تصویر 2000ء کی ہے جب اسرائیل نے عالمی قوانین کو ٹھکراتے ہوئے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ فلسطین کے اکثر حصوں پر اپنا قبضہ جما لیا،اب فلسطین چند چھینٹوں کی طرح نظر آتا ہے۔دنیا بھر میں پچاس سے زائد مسلم حکومتیں موجود ہیں لیکن اسرائیلی جارحیت کے آگے یا تو خاموش ہیں یا خانہ پری کے لیے مذمتی قرار داد پیش کرکے دامن جھاڑ لیتی ہیں۔سعودی عرب جیسے ممالک خفیہ طور پراسرائیل کو تسلیم کرکے اس سے کاروباری رشتے جوڑ رہے ہیں۔اسرائیلی جارحیت اور ظالمانہ قبضے کی بنا پر فلسطینی ریاست دن بدن سکڑتی جارہی ہے۔قبلہ اول کو گرانے کی سازشیں عروج پر ہیں۔آئے دن اسرائیلی فوجی فلسطینی جوانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔قبلہ اول میں نماز پڑھنے پر پابندی لگاتے ہیں لیکن مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اب ایپل اور گوگل جیسی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اسرائیلی زیادتی کا کھل کر ساتھ دینے پر اتر آئی ہیں۔ارض فلسطین پھر کسی صلاح الدین ایوبی کی راہ دیکھ رہی ہے۔

29 ذوالقعدہ 1441ھ
21 جولائی 2020 بروز منگل