صد حیف کہ اب محافظ بھی محفوظ نہیں! کانپور میں بدمعاشوں کے سرغنہ وکاش دوبے کی پولس اہلکار پر اپنی ٹیم کے ساتھ تابڑ توڑ فائرنگ نے اب حکومت اور انتظامیہ پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے؟ 
معتبر ذرائع ابلاغ سے یہ خبریں مسلسل موصول ہورہی ہیں کہ اس شدت پسندانہ حملے میں چالیس پولس اہلکار بھی شریک ہیں کہ انہوں نے شدت پسند وکاش دوبے کو حملے سے چار گھنٹے قبل یہ اطلاع دے دی تھی کہ اس پر دبش پڑنے والی ہے اور یہ عمل اپنے آپ میں نہایت ہی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے جس پر قانون بھی شرمندہ ہے۔
      وکاش دوبے کا یہ کوئی نیا جرم نہیں تھا جس سے پولس نے دھوکہ کھایا بلکہ اس سے پہلے بھی یہ کئی واردات میں شریک تھا لیکن مثل مشہور ہے نا"گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے" پولس اس آپریشن سے باخبر تھی بلکہ حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب یہ پتا چلا کہ اس گینگ کے سرغنہ وکاش دوبے کے رہائش پزیر علاقہ کی بتی گل بھی ایک پولس افسر ہی نے کرائی تھی۔
     لیکن جو آٹھ پولس اہلکار اس واردات میں شہید ہوئے ان بےچاروں کو کیا پتا تھا کہ آستین کے سانپ آج اپنا الو سیدھا کرنے کے فراق میں ہیں بعض معتبر ذرائع جیسے "times India" وغیرہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ تھانے میں تعینات پولس والوں کا مخبری کرنے کا سبب باہمی رنجش تھا، اور یہ واردات اس شعر
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے 
               اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
کی عملی تصویر بن گئی۔
     بتایا جارہا ہے کہ اس میں سیاست کا لنک بھی ہوسکتا ہے لیکن ادھر کسی روز ناہ نے توجہ مبذول نہیں کرائی شاید اس کی وجہ یا تو حکومت کا دباؤ ہے یا پھر الکٹرانک میڈیااورملٹی میڈیا میں اتنی جسارت نہیں کہ وہ بیباکی سی حق گوئی کا فریضہ سرانجام دے سکے۔
     سیاست کے لنک کاشک اس بنا ہر بھی حتمی ہوجاتا ہے کہ شدت پسند وکاش دوبے پیشگی ہی ایک  نیتا کے قتل کا واقعہ انجام دے چکا ہے ، پھر یہ شبہ اس لیے بھی اور مضبوط ہوجاتا یے کہ اس کی بیوی اور اس کا چاچابلکہ اس کے پورے خاندان کا سیاست میں خاصا اثر و رسوخ ہے لیکن کیا کہیے "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" میڈیا تو حکومت کی زبان بولے گا نا، 
     ایک بات پر یہاں ضمنا توجہ مبذول کرانے کی ضرورت یہ ہے کہ اگر اس معاملے میں اگر کوئی مسلم لنک نظر آجاتا تو میڈیا کو ہفتوں کے لیے کچھ کام مل جاتا اور اسے خوب اچھالا جاتا ، شدت پسند اور دہشت گرد جیسے القاب سے مسلمانوں کو نوازا جاتا لیکن اب میڈیا میں بلکل سناٹا چھایا ہوا ہےبلکہ ایسا لگتا ہے کہ انہیں سانپ سونگھ گیا ہے۔
      بہر حال یہ واردات وزیرِ اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اترپردیش کو بھی سوالوں کے گھیرے میں لاکھڑا کرتی ہے کہ کہاں گیا قانون؟ کہاں گئی انتظامیہ؟ کیا پولس بدمعاشوں کے لیے صرف کھلونا ہے؟ کیا یہ بد نما داغ جو پولس کی ناکامی کا ان کی وردی پر لگا ہے کبھی دھل پائے گا ؟ کیا جو پولس اہلکار شہید ہوئے ہیں ان کا خون یونہیں رائیگاں چلا جائے گا ؟۔
     اس سلسلے میں وزیرِ اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اترپردیش سے ہم عوام کی آواز بن کر یہ مانگ کرتے ہیں کہ اس معاملے کی ایک دم صحیح سے تفتیش ہو اور مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جاے۔
تحریر: محمد ایوب مصباحی استاذ دارالعلوم گلشنِ مصطفی بہادر گنج، مراداباد یوپی
(مراسلہ نگار کی رائے سے ایڈیٹر کا متفق ہونا ضروری نہیں

0 تبصرے