از:محمّدشمیم احمدنوری مصباحی
خادم التدریس:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان

حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سےایک عظیم فریضۂ الٰہی ہے،یہ ہراس شخص پرزندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جوصاحب استطاعت ہو-یہ اسلام کاایک ایسارکن ہے جواجتماعیت اوراتحادویگانگت کاآئینہ دارہے،قرآن شریف میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
"وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ"۔
(ال عمران:۹۷)
ان لوگوں پراللّٰہ کےلئے خانۂ کعبہ کاحج کرنافرض ہے جووہاں جانے کی استطاعت رکھتےہوں-اور جونہ مانے[اورباوجودقدرت کے حج کونہ جائے]تواللّٰہ سارے جہان سے بے نیازہے-
اس آیت میں حج کے فرض ہونے کا اعلان بھی فرمایاگیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایاگیا ہے کہ وہ صرف ان لوگوں پر فرض ہے جووہاں پہونچنے کی طاقت اور حیثیت رکھتے ہوں۔
اورآیت کے آخری حصے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے حج کرنے کی استطاعت اورطاقت دی ہو اور وہ ناشکری سے حج نہ کریں(جیسے کہ آج کل کے بہت سے مالدار نہیں کرتے) تو اللہ تعالی سب سے بے نیاز اور بے پرواہ ہے،اس لیے ان کے حج نہ کرنے سے اس کا تو کچھ نہیں بگڑے گا،البتہ اس ناشکری اورکفران نعمت کی وجہ سے یہ ناشکرے بندے خودہی اس کی رحمت سے محروم رہ جائیں گے اور ان کا انجام خدانخواستہ بہت براہوگا، رسول اللہﷺ کی ایک حدیث میں ہے کہ:
"جس کسی کو اللہ نے اتنا دیا ہو کہ وہ حج کرسکے لیکن اس کے باوجود وہ حج نہ کرے تو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ خواہ وہ یہودی ہوکرمرے یا نصرانی ہوکر"۔
(ترمذی،باب ما جاءفی التغلیظ فی ترک الحج)
قارئین: اگر ہمارے دلوں میں ایمان واسلام کی کچھ بھی قدر ہو اور اللہ ورسول سے کچھ بھی تعلق ہو،تو اس حدیث کے معلوم ہوجانے کے بعد ہم میں سے کسی ایسے شخص کو حج سے محروم نہ رہنا چاہیے جووہاں پہونچ سکتا ہو۔

*فرض حج میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے:* رسولِ رحمت صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:"فریضہ حج اداکرنے میں جلدی کرو،کیوں کہ کسی کونہیں معلوم کہ اسے کیاعذر پیش آجائے"(مسنداحمد)

        *حج کے فضائل وبرکات*
بہت سی حدیثوں میں حج اور حج کرنے والوں کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں یہاں ہم صرف دوتین حدیثیں ذکرکرتے ہیں،ایک حدیث میں ہے کہ:
"حج اور عمرہ کے لیے جانے والے لوگ اللہ تعالی کے خاص مہمان ہیں ،وہ اللہ سے دعاکریں تواللہ ان کی دعا قبول کرتا ہے، اور مغفرت مانگیں تو ان کو بخش دیتا ہے"۔
(ابن ماجہ،باب فضل دعاء الحاج)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:
جو شخص حج کرے اور اس میں کوئی فحش اور بیہودہ حرکت نہ کرے اور اللہ کی نافرمانی نہ کرے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہوکر واپس آئے گا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت بالکل بے گناہ تھا"۔
(بخاری،باب فضل الحج المبرور)
ایک اور حدیث میں ہے کہ:
"حج مبرور(یعنی وہ حج جو خلوص کے ساتھ اور بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کیا گیا ہو اور اس میں کوئی برائی اور خرابی نہ ہوئی ہو تو)اس کی جزا صرف جنت ہی جنت ہے"۔
(مسند احمد بن حنبل،مسند جابر بن عبداللہ)
*حج کی نقد لذّتیں:* حج کی برکت سے گناہوں کی معافی اور جنت کی نعمتیں جو حاصل ہوتی ہیں وہ تو انشاء اللہ پوری طرح آخرت میں ملیں گی،لیکن اللہ تعالی کی خاص تجلی گاہ اور اس کے انوار کے خاص مرکزبیت اللہ کو دیکھ کر اور مکہ معظمہ کے ان خاص مقامات پر پہونچ کر جہاں حضرت ابراہیم واسمعیل علیہما السلام کی اور ہمارے نبی ورسول سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص یادگاریں اب تک موجود ہیں ایمان والوں کو جولذت اور دولت حاصل ہوتی ہے وہ بھی اس دنیا میں جنت ہی کی نعمت ہے ، پھر مدینہ طیبہ میں روضۂ اقدس کی زیارت اورحضور اکرمﷺ کی مسجد شریف میں نمازیں پڑھنا اور براہ راست حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر صلوٰۃ وسلام عرض کرنا،طیبہ کی گلیوں میں اوروہاں کے پہاڑوں وشاہراہوں میں پھرنا، وہاں کی ہوا میں سانس لینااور وہاں کی مقدس زمین میں اور ہوا میں بسی ہوئی خوشبو سے دماغ کا معطر ہونااور حضورﷺ کو یاد کرکے شوق ومحبت میں خوش ہونا،کبھی ہنسنا اور کبھی روپڑنا،یہ وہ لذتیں ہیں جو حج کرنے والوں کو مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ پہونچ کر نقد حاصل ہوتی ہیں؛ بشرطیکہ اللہ تعالی بندے کو اس قابل بنادے کہ وہ ان لذتوں کو محسوس کرسکے ،آئیئے ہم سب دعاکریں کہ اللہ تعالی محض اپنے فضل وکرم سے یہ لذتیں اور دولتیں ہم کو نصیب فرمائے۔

*اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر:* یوں تواسلام کی  بنیاد پانچ چیزوں [یعنی کلمہ،نماز،زکوٰۃ،روزہ، اورحج] پر ہے اور یہ پانچوں"ارکان اسلام"کہے جاتے ہیں،جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے،آپ نے فرمایاکہ، اسلام کی بنیاد ان پانچ چیزوں پر قائم ہے:
"ایک لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کی شہادت دینا،دوسرے نماز قائم کرنا،تیسرے زکوٰۃ دینا،چوتھے رمضان کے روزے رکھنااورپانچویں بیت اللہ کا حج کرنا ان کے لیے جو وہاں تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں"۔
(بخاری ومسلم)
ان پانچ چیزوں کے ارکان اسلام اور بنیاد اسلام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسلام کے بنیادی فرائض ہیں اور ان پر اچھی طرح عمل کرنے سے اسلام کے باقی احکام پر عمل کرنے کی بھی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
یہاں ہم نے ان ارکان میں سے صرف حج کی اہمیت اورفضیلت بالاختصار درج کی ہے،ان کے تفصیلی فضائل ومسائل کو سمجھنے کے لئے فقہ کی معتبر کتابوں کاسہارالیاجائے!۔

0 تبصرے