از قلم :غلام ربانی مصباحی  
کٹگھرا, ہزاری باغ 
رکن :مجلس علماے جھارکھنڈ
ghulamrabbanimisbahi786@gmail.com


دین اسلام میں اہم اور مہتم بالشان عبادتیں  ہیں مثلاً، نماز، روزہ، حج، اور قربانی وغیرہ ان عبادات کو متعین وقت کے ساتھ  مربوط کیا گیا کہ وہ وقت کے بعد ادا نہ کہلائیں گی ۔
نماز کے بارے میں وقت سے متعلق قرآن میں آیا  ہے : "ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا"             
ترجمہ: نماز مومنوں پر الگ الگ وقت میں فرض ہے ۔یعنی 
 پنج وقتہ نماز میں سے ہر ایک کا وقت مقرر ہے ۔
حج کے بارے میں فرمایا گیا: "الحج اشھر معلومات"
ترجمہ: حج کے لیے معلوم اور متعین مہینے ہیں ۔
اسی طرح قربانی کے بارے میں  حدیث آئی ہے: "من ذبح قبل الصلوۃ فلیعبد مکانھا آخری"
ترجمہ جس نے نماز عید الاضحی سے پہلے قربانی کی وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے ۔
روزے سے متعلق  قرآن کا ارشاد ہے: "اتموا الصیام الی اللیل "
ترجمہ: رات تک یعنی سورج ڈوبنے تک روزہ پورا کرو ۔


غرض کے ان عبادتوں کو وقت کے ساتھ اس طرح مربوط اور مشروط کردیا گیا ہے کہ ٫٫اذ وجد وجد٬انتفی انتفی،، والی صورت پیدا ہوگئی ہے۔اگر یہ عبادتیں وقت سے پہلے ادا کی جائیں تو سرے سے عبادت درست ہوگی ہی نہی اور وقت گزر جانے کے بعد یہ عبادت انجام دی جائیں تو ان کی  معنویت اور چاشنی ہی ختم ہو جائے گی۔نیز وقت گزر جانے کے بعد یہ عبادت ادا کے بجائے قضا  کہلائیں گی اور قضا موجب عتاب ہے ۔تو اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلامی عبادات کی ادائیگی میں وقت کی پابندی بہرحال ضروری ہے۔قربانی بھی انہیں عبادتوں میں سے ایک ہے جس میں وقت کی رعایت اور پابندی ضروری ہے۔قربانی کے اجر و ثواب اور اس عمل کے محبوب مستحسن ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں،ہاں قربانی کا وقت کب سے کب تک ہے؟ اور قربانی کتنے دنوں تک جائز ہے؟ اس مسئلہ میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے۔ 


امام شافعی کے علاوہ امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قربانی صرف تین دن تک جائز ہے۔یعنی 10/تا 12 ذی الحجہ/اور 13ذی الحجہ کو قربانی جائز نہیں۔ان ائمہ ثلاثہ کے علاوہ صحابہ کرام میں حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت انس، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مسلک ہے کہ قربانی صرف تین دن تک جائز ہے۔ البتہ امام شافعی کا اختلاف ہے وہ چار دن تک قربانی کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ عید الاضحی کے بعد تیسرے دن بھی قربانی ہو سکتی ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں : وأما اخر وقت التضحیۃ فقال الشافعی :تجوز فی یوم النحر و أیام التشریق الثلاثۃ بعدہ... وقال ابو حنیفۃ و مالک واحد : تخص بیوم النحر و یومین بعدہ وروی ھذا عن عمر بن الخطاب و علی و ابن انس رضی اللہ عنھم . (حوالہ: قربانی صرف تین دن , ص:31,32)


امام نووی نے تین دن قربانی سے متعلق چار صحابہ کرام کا ذکر فرمایا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ چار نہیں بلکہ 6صحابہ کرام سے روایت منقول ہے کہ ایام قربانی صرف تین دن ہے  ان4  جلیل القدر صحابہ کرام کا ذکر  تو امام نووی نے خود کیا ہے باقی دو صحابی جن سے تین دن  کی روایت ثابت  ہے وہ رئیس الحفاظ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں ۔


علامہ ابن قدامہ حنبلی نے صحابہ کرام میں سے حضرت عمر، علی، ابو ہریرہ، ابن عباس، ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ 10 ذی الحجہ اور اس کے بعد صرف دو دن قربانی جائز ہونے میں ان حضرات کا بھی یہی نظریہ ہے۔ (حوالہ: قربانی صرف تین دن،ص:32)


صرف تین دن تک قربانی جائز ماننے والے صحابہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ہیں چنانچہ علامہ عینی نے صاحب استذکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ عبداللہ ابن مسعود نے فرمایا قربانی کا وقت  تین دن ہے۔(حوالہ: ایضا:ص33)


صرف تین دن تک قربانی جائز ہونے کا نظریہ،صرف امام اعظم،امام مالک اک اور امام احمد بن حنبل ہیں کا نہیں  بلکہ کہ 7 جلیل القدر صحابہ کرام کا بھی یہی نظریہ ہے  تو اب یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ان صحابہ کرام نے محض اپنی رائے یا طبیعت سے یہ نظریہ قائم نہیں فرمائی بلکہ انہوں نے یہ سنا ہے یا پھر حضور کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے حضرت عمر اور حضرت علی جیسے عظیم المرتب دین کے مقابلے میں جو غایت درجہ احتیاط فرماتے تھے وہ کوئی چھپی بات نہیں ۔


لہذا ان سات صحابہ کرام کے اس مقدس یعنی تین دن قربانی جائز ہونے کو معنا ٫٫ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال کذا أو رایتہ فعل کذا "کی منزل میں اتار لیا جائے گا.اور جب کوئی صحابی کہے کہ" میں نے حضور سے فنا بعد سنی یا حضور کو فلاں بات سنی یا حضور کو فلاں کام کرتے دیکھا" تو محدثین کے نزدیک یہ قول بالاتفاق معتبر ہے.


 مذکورہ تمام باتوں سے ثابت ہو گئی کہ قربانی صرف تین دن ہے لہذا اب اگر کوئی اس کا انکار کرے اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اس کے عقل پر پردہ پڑ گیا ہے.