غلام مصطفےٰ نعیمی
جنرل سیکریٹری تحریک فروغ اسلام دہلی 

47؍سال کا ہسٹری شیٹر وِکاس دُوبے ہے لیکن کارنامے عمر سے بڑھ کر،اتنے کہ 60؍سے زیادہ سنگین مقدمے درج ہیں۔اس قدر خطرناک مجرم ہونے کے باوجود سیاسی پارٹیوں اور سیاست میں اس قدر دبدبہ کہ پچھلے 15؍سال سے گاؤں کی پردھانی اپنے ہی گھر میں ہے۔اپنی بیوی کے ساتھ ضلع پنچایت کی دو سیٹوں پر 15؍سال سے فتح یاب ہوتا آرہا ہے۔صوبے کی تین بڑی پارٹیوں،بی جے پی،سپا اور بسپا تک میں گہری پکڑ رکھنے والے وِکاس دوبے کی کہانی نے حکومت وانتظامیہ کا وہ چہرہ بے نقاب کر دیا ہے جس کے بارے میں بہت کھل کر کبھی بات نہیں ہوتی۔کانپور میں آٹھ پولیس والوں کی موت نے کچھ ایسے سوالات کھڑے کیے ہیں جن کے جواب دینا حکومت اور انتظامیہ کے لیے بے حد ضروری ہیں۔آٹھ پولیس جوانوں کا ایک تصادم میں ہلاک ہوجانا معمولی واقعہ نہیں ہے اس لیے اس سسٹم پر بھی کھل کر بات ہونا چاہیے جہاں سے ایسے مجرمین تیار ہوتے ہیں اور حکومت وانتظامیہ کی جانب سے ان کی سرپرستی کی جاتی ہے۔

یوپی کی بی جے پی حکومت بار بار یہ دعوی کرتی آئی ہے کہ ماقبل کی سپا بسپا حکومتوں میں جرائم اور مجرمین کا بول بالا تھا لیکن بی جے پی حکومت کی تشکیل کے بعد مجرمین نے یوپی چھوڑ دیا ہے۔بات سننے میں تو بہت اچھی لگتی ہے لیکن جب اس دعوے کو حقیقت کی زمین پر پرکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سارے دعوے ہوائی ہیں۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(NCRB) کی 2019 میں جاری رپورٹ کے مطابق جرائم کے معاملے یوپی پورے ملک میں سر فہرست ہے۔خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں بھی یوپی پہلے نمبر ہے۔یہاں ایک سال میں خواتین کے ساتھ ہونے والے درج شدہ جرائم کی تعداد 56011 ہے۔ ملک بھر میں ہونے والے اغوا کے واقعات کے کل 21؍فیصد کیس یوپی میں ہوئے ہیں۔اسی طرح بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم میں بھی یوپی پہلے نمبر پر ہے۔ایک سال میں یوپی کے اندر قتل کی 28 ہزار 653 واردات درج کی گئیں ہیں۔ یہ سارے جرائم اس وقت ہوئے ہیں جب یوپی میں ایک ہزار سے زائد انکاؤنٹر کے دعوے کیے گیے ہیں اور وزیر اعلیٰ یہ دعوی کرتے گھوم رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے بعد مجرمین یوپی چھوڑ کر چلے گیے ہیں۔اب یہ پہیلی سمجھ سے باہر ہے کہ جب سارے مجرمین یوپی چھوڑ کر چلے گیے،جو باقی بچے انہیں انکاؤنٹر میں ہلاک کر دیا گیا تو پھر یہ جرائم کون کر رہا ہے؟

اگر چند بڑے جرائم کی بات کریں تو پچھلے سال 17؍جولائی کو سون بھدر میں 10 قبائلی افراد کو دن دہاڑے قتل کر دیا گیا تھا۔
ستمبر ۲۰۱۸ء میں راجدھانی لکھنؤ کے گومتی نگر میں دو پولیس والوں نے Apple کمپنی کے ایریا مینجر وِویک تواری کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اناو ضلع میں بی جے پی ایم ایل اے کُل دِیپ سِنگھ سَینگر نے ایک نابالغہ کے ساتھ زنا بالجبر کیا، مخالفت کرنے کی پاداش میں اس کے باپ کو بری طرح مارا پیٹا اورجھوٹے کیس میں گرفتار کرایا جہاں جیل میں ہی موت ہوگئی۔
اسی کیس میں مقدمے کی پیروی کر رہی اس کی چاچی اور مَوسِی کو ایک ٹرک ایکسی ڈینٹ کے ذریعے قتل کرا دیا گیا۔خود متاثرہ شدید زخمی ہوئی۔
یوپی میں یہ سارے جرائم علی الاعلان ہوئے لیکن وزیر اعلیٰ اور یوپی انتظامیہ نے انتہائی سرد مہری سے کام لیا،اُنّاو کیس میں تمام تر ثبوتوں کے باوجود یوپی پولیس نے مجرم سینگر کو گرفتار تک نہیں کیا،کیس این آئی اے(NIA) کے ہاتھ میں آیا تب جاکر یہ خطرناک مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا۔

*حکومت وانتظامیہ کی مسلم دشمنی*
جو حکومت وانتظامیہ کھلے عام غنڈہ گردی کرنے والے مجرموں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے سو بار سوچتی ہے اسی یوپی حکومت اور انتظامیہ کا دوسرا چہرہ دیکھیے !!
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف پورے ملک میں مسلمانوں نے اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اس قانون کی مخالفت میں احتجاجی مظاہرے کیے۔لیکن حکومت وانتظامیہ نے جمہوری احتجاج کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا اور خاموش احتجاج کر رہے مظاہرین پر پولیس نے انتہائی بے رحمی کے ساتھ گولیاں چلائیں۔پورے صوبے میں قریب ۲۲؍سے زائد مظاہرین کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔مظاہرین بے قابو ہو جائیں تو پولیس احتیاطاً ربڑ کی گولیاں چلا سکتی ہے مگر کمر سے نیچے تاکہ جانی نقصان نہ ہو اور مظاہرین پر قابو پایا جاسکے۔لیکن پولیس کو یہ قاعدے قانون اس وقت یاد رہتے ہیں جب مظاہرین غیر مسلم ہوں، مسلمانوں کو دیکھتے ہی پولیس کی بندوق سیدھا سینے کی جانب اٹھتی ہے اور ربڑ کی نہیں بلکہ اصلی گولی چلتی ہے۔سی اے اے مظاہروں میں اکثر مظاہرین کی موت کمر سے اوپر گولی لگنے سے ہوئی ہے۔
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے "بدلہ" لینے جیسی غیر دستوری زبان استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو دھمکی دی جس پر عمل کرتے ہوئے پولیس انتظامیہ نے گرفتاری کے نام پر مسلم آبادیوں پر دھاوا بول دیا۔مکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور گھر میں رہنے والے بزرگ وخواتین کو اپنے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس قدر سفاکیت کے بعد بھی حکومت وانتظامیہ کا جوش انتقام ٹھنڈا نہیں ہوا تو مسلمانوں پر ہی توڑ پھوڑ اور تشدد کا الزام لگا کر جرمانہ وصولی کا نادر شاہی فرمان سنا کر سڑکوں چوراہوں پر مظاہرین کی تصویریں لگا کر شہری حقوق کی کھل کر پامالی کی گئی۔ایسا ظاہر کیا گیا مانو صوبے کے سب سے بڑے مجرمین سی اے اے مظاہرین ہی ہیں۔ اس وقت حکومت اور انتظامیہ دونوں نے ہی تمام تر اخلاقایات کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کی دل آزاری میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن کانپور تصادم کے بعد یہ سوال شدت سے پیدا ہوتا ہے جو حکومت سی اے اے مظاہرین کو گلی کوچوں میں تلاشتی پھر رہی تھی اس کی نگاہوں سے 60 سے مجرمانہ واردات کرنے والا گینگسٹر کس طرح چھپا رہا؟
وزیر اعلی، جنہوں نے ہائی کورٹ کی پھٹکار کے باوجود مظاہرین کی تصویروں کو ہٹانے میں آنا کانی کی، آخر انہیں وِکاس دوبے جیسے عادی غنڈے اور مجرموں کی تصوریں لگانے کا خیال کیوں نہیں آتا؟
سی اے اے مظاہرین تو اپنے جمہوری حق کا استعمال کرنے اور جمہوری انداز میں اپنا اختلاف ظاہر کرنے آئے تھے لیکن پولیس انتظامیہ نے نِہتّے مظاہرین پر گولیاں اور لاٹھیاں برسا کر اپنی بہادری دکھانے والی پولیس ایک غنڈے کے جال میں کس طرح پھنس گئی؟
کانپور تصادم میں ایک داروغہ وِنے تِواری کا کرادر مشکوک پایا گیا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق پولیس پارٹی کے ریڈ مارنے کی خبر داروغہ نے ہی گینگسٹر کو دی تھی جس کے بعد اس نے جال بچھا کر پولیس پارٹی پر قاتلانہ حملے کا پلان بنایا۔جہاں آٹھ بہادر جانبازوں کو اپنی جان قربان کرنا پڑی۔
ونے تواری جیسے پولیسیا افراد وِکاس دوبے جیسے گینگسٹروں کی مخبری کرتے ہیں،حکومتیں انہیں شہ دے کر پروان چڑھاتی ہیں وہی پولیس اور حکومتیں اپنے ذمہ دار شہریوں پر گولیاں برسا کر ان کے جمہوری حقوق کو بے دردی سے پامال کرتی ہیں۔ جو طاقت دوبے جیسے عادی غنڈوں کے خلاف استعمال کی جانی چاہیے وہ امن پسند عوام کے خلاف استعمال ہوتی ہے جب تک حکومت اور انتظامیہ کا یہ دوہرا کردار رہے گا وِکاس دوبے جیسے غنڈے پیدا ہوتے رہیں گے۔ اگر ملک اور سماج کو ایسے غنڈوں سے پاک کرنا ہے تو امن پسند عوام نہیں بلکہ دُوبے جیسے غنڈوں کے خلاف قانونی طاقت کا استعمال کرنا ضروری ہے۔

14 ذوالقعدہ 1441 ھ
6 جولائی 2020 بروز پیر
گیسٹ کالم

0 تبصرے