از: ⁩ احمد رضا ازہری، رام گڑھ. 
  جامعہ ازہر ،مصر
  رکن: (مجلس علماے جھارکھنڈ) 


دنیا میں یوں تو بہت سارے لوگ آۓ اور زندگی کے چند ایام گزار کر چلے گئے۔ ان کے ساتھ ان کا تذکرہ بھی دفن ہو گیا۔ لیکن کچھ شخصیتیں ایسی  ہوتی ہیں جو اپنے تابندہ نقوش چھوڑ کر جاتی ہیں۔ کئی صدیوں تک چرخ عالم پہ ان کی طلسماتی شخصیت کا جادو چڑھ کر بولتا ہے۔ انہیں شخصیتوں میں علامہ سید اقبال حسنی برکاتی اور ان کے سگے بھائی صحافی سید خورشید حسن ہاشمی ہیں۔ دونوں بھائی اپنے اپنے میدان علم وفن میں ید طولی رکھتے تھے۔ جہاں علامہ سید اقبال حسنی برکاتی خطابت کے جلوؤں سے قوم کو مسحور کر رہے تھے وہیں صحافی خورشید حسن ہاشمی اپنے بہترین قلم کاری اور ادبی شہ پاروں سے دل جیت لیتے۔
  دونوں بھائی ہندوستان کے مشہور شہر گیا (بہار) سے تعلق رکھتے تھے۔ دینی گھرانہ میں پیدائش ہوئی اس لیے دینی تعلیم حاصل کرنے کا ذوق وشوق بھی پروان چڑھا۔ اشتیاق علم جامعہ اشرفیہ مبارکپور، اعظم گڑھ لے آیا۔ دونوں بھائی نہایت ہی ذہین و فطین، خلیق و ملنسار اور خوش مزاج انسان تھے۔ چند سالوں تک جامعہ اشرفیہ میں تعلیم حاصل کی۔ پھر جامعہ فاروقیہ بنارس چلے آئے اور وہیں "العلماء ورثة الأنبياء" کا تاج زریں سر پر سجایا۔ دستار علم وفضل کے بعد دونوں بھائیوں نے طبیعت کے موافق مختلف محاذ چنا۔ علامہ سید اقبال حسنی خطابت و قیادت کے میدان میں چلے آئے اور صحافی سید خورشید حسن ہاشمی صحافت کے میدان میں چلے گئے۔
  حضرت علامہ سید اقبال حسنی بھی تصنیف وتالیف سے شغف رکھتے تھے لیکن انھیں خطابت میں طرۂ امتیاز حاصل تھا۔ پورے ہندوستان میں تقریری دورہ ہوتا۔ لمبی قد وقامت، سپاٹ چہرہ، کشادہ پیشانی، سر پر عمامہ، بدن پر ہلکے رنگ کا جبہ، جب منبر خطابت پر تشریف لاتے تو خلق خدا ہمہ تن گوش ہو جاتی۔ شستہ اور سائشتہ لب ولہجہ، جملوں کے بیچ ٹھہراؤ، دلائل و براہین سے مبرہن گفتگو۔ جب کبھی قوم کے مسائل پر خطاب کرتے تو ماتھے پر سلوٹیں ابھر آتی، کیفیت مضطرب ہو جاتی۔ یقیناً آپ قوم کے سچے مخلص اور دردمند تھے۔ خطابت کے علاوہ آپ نے کئی تعمیراتی خدمات بھی انجام دی۔ شہر گیا میں احیاء علوم اسلامیہ کی خاطر جامعہ برکات پیر منصور  قائم کیا اور آخری سانس تک نونہالان علم وفن کی علمی وفکری پرورش و پرداخت کرتے رہے۔ 
  مضمون نویسی سے بھی دل چسپی تھی۔ لہٰذا آپ کے بیشتر مضامین ومقالات ملک بھر کے رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہے،سیمیناروں میں بھی شرکت کرتے۔ 
  متعدد اوصاف سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ اصاغر نواز شخص تھے۔ چھوٹوں کی باتیں غور سے سنتے، ان کے مشکلات کا ازالہ فرماتے اور ان کی علمی و عملی تحریکوں کی دل کھول کر تائید کرتے۔ مجلس علماے جھارکھنڈ کے اراکین کا ان کے ساتھ کئ خوشگوار ملاقاتیں تھی، بالخصوص مولانا ابوہریرہ رضوی مصباحی(رام گڑھ) سے ان کے تعلقات بہت اچھے تھے، سالنامہ باغ فردوس (جامعہ اشرفیہ مبارک پور) کی اشاعت میں حضرت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور اپنے مفید مشوروں سے نواز تے.
 
  موصوف محنتی، پابند وقت اور فکری وانقلابی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی دینی، علمی، فکری، تعمیری، فلاحی، رفاہی خدمات قابل ستائش ہیں۔
 حضرت علامہ اقبال حسنی کے بڑے بھائی، سید خورشید حسن ہاشمی بھی نہایت متواضع، منکسر المزاج اور علما نواز شخص تھے۔ آپ ایک کہنہ مشق مصنف، ادبی تنقید نگار، شاعر اور بے باک صحافی تھے۔ آپ نے صحافت اور مضمون نگاری کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ ایک زمانے تک روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ سے جڑے رہے۔ اخیر کے ایام میں روزنامہ تاثیر سے منسلک تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی سرگرم رہتے اور قوم کے سلگتے مسائل پر وقیع تبصرہ کرتے۔ آپ کو مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ سے گہرا لگاؤ تھا۔
  یقیناً آپ دونوں بھائیوں کے چلے جانے سے قوم وملت کا عظیم خسارہ ہوا ہے اور علمی و ادبی دنیا میں خلا پیدا ہو گیا ہے۔ آپ دونوں حضرات کا ذکر خیر رہتی دنیا تک مجلس علم وادب کے ماتھے کی جھومر رہے گا۔ آپ دونوں کی قربانیاں آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی.
   مجلس علماے جھارکھنڈ کے اراکین اس غم کی گھڑی میں ان کے اہل خانہ کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ دونوں کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین

   ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا 
   آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

0 تبصرے