غلام ربانی مصباحی 
دائرۃ القلم کٹگھرا, ہزاری باغ 
رکن :(مجلس علماے جھارکھنڈ) 
رابطہ نمبر:7860231892




قربانی کیا ہے؟

قربانی اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں طاعات و عبادات کے ذریعے قربت حاصل کرنے کا نام ہے ۔ یعنی علمی اور شعوری طور پر اللہ تعالٰی کے نافذ کردہ احکام و قوانین کے آگے سر تسلیم خم کر دینا ہی قربانی کی غرض و غایت اور اس کا  مقصد اصلی ہے۔ قربانی زندہ قوموں کی علامت،انبیائے سابقین  کی سنت اور پورے انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود اور دینی واخروی کامیابی کی ضمانت ہے قربانی خواہ جان کی ہو  یا مال کی یا کسی اور چیز کی بہرحال کامیابی و سرخروئی کا ذریعہ ہوا کرتی ہے دین اگر جسم ہے تو قربانی اس کی روح ۔
دین و شریعت میں قربانی کا مفہوم بہت وسیع  ہے۔قربانی کو ایک رسمی تہوار یا صرف گوشت کھانے کی عید سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔محنت و مشقت میں ڈوب کر ہر حال میں احکام الٰہی کی پابندی اور راہ خدا میں سب کچھ لٹا دینے کا نام قربانی ہے۔اہل ایمان  نے جب قربانی کی حقیقت و اہمیت کو سمجھا اور اس کے تقاضوں پر عمل کیا،اسلام اور مسلمانوں کی عظمت کا دور دورہ رہا،حکومت واقتدار ہمارے ہاتھوں میں تھا ،دنیا پر ہماری حکومت تھی۔لیکن جب سے قربانی کا جذبہ ماند پڑ گیا،مسلمانوں کی ذلت و پستی کا دور شروع ہوگیا اور عظمت و رفعت کے بجائے ذلت و نکبت مسلمانوں کی تقدیر ٹھہری۔
"قربانی " یہ لفظ قرب سے بنا ہے اور عربی میں قرب کا معنیٰ ہے : " قریب ہونا نزدیک ہونا" اور قربانی کے ذریعے ک
چوں کہ اللہ تعالیٰ کی قرب اور اس کی نزدیکی طلب کی جاتی ہے اس لیے اسے "قربانی" کہتے ہیں۔اور اردو زبان میں قربانی کا معنی ہے حلال ذبیحہ جس کو خاص عیدالاضحیٰ کے موقع پر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو۔اور اصطلاح شریعت میں قربانی ایک مالی عبادت کو کہتے ہیں خاص جانور کو خاص دنوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے ثواب اور تقرب کی نیت سے ذبح کرنا۔
عید الاضحٰی مسلمان اس عید کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار کے طور پر مناتے ہیں آج سے ہزاروں سال پہلے اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رضائے الٰہی کی خاطر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کردیا تھا  اطاعت رب اور تسلیم و رضا کی  کی وہ مثال قائم کی تھی کہ دنیا آج بھی حیران ہے مسلمان آج کے دن اسی واقعہ خلیلی کی یاد تازہ کرتے ہیں، اور قربانیاں کرتے ہیں۔
عیدالاضحیٰ کو صرف گوشت کھانے کا تہوار سمجھنا غلط ہے سنت ابراہیمی کو زندہ رکھنا، اطاعت رب اور رضائے مولی کا بھولا ہوا سبق یاد کرنا ہی عیدالاضحیٰ کی حقیقت ہے۔
قربانی کا وجوب: 
قربانی صاحب استطاعت (مالک نصاب) یعنی مالداروں پر واجب ہے۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے اندر قربانی کی استطاعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہمارے عیدگاہ میں نہ آئے۔ اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی واجب ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ حکم دیا ہے۔
قربانی کس پر واجب ہے؟
آزاد،مقیم اور صاحب استطاعت مسلمان پر واجب ہے۔قربانی واجب ہونے کے لئے مرد ہونا شرط نہیں،اگر عورت مالک نصاب ہو تو مرد کی طرح عورت پر بھی قربانی واجب ہے۔جو مالدار حج کے لئے گیا  ہو اگرچہ وہ مالدار ہے اگر مسافر ہو تو اس پر  قربانی واجب نہیں , واجب ہونے میں بالغ کی بھی قید ہے ۔
مالدار لوگوں کے متعلق حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علیہ الرحمہ، بہار شریعت میں فرماتے ہیں: مالداری سے مراد وہ ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے،وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے،جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت  (اصلیہ) کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دو سو درہم ہے وہ غنی (مالدار )ہےاس پر قربانی واجب ہے۔
قربانی کی فضیلت احادیث کی روشنی میں: 
ابو داود،ترمذی و ابن ماجہ میں میں ام  المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ یوم النحر ( دسویں ذی الحجہ) میں  ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پیارا نہیں۔اور وہ جانور قیامت کے دن اپنی سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے لہٰذا اس کو خوش دلی سے کرو۔
صحیح بخاری میں براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے جو کام ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں،اس کے بعد قربانی کریں گے،جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا،اور جس نے پہلے ذبح کیا وہ گوشت ہے جو پہلے سے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کر لیا،قربانی سے اسے کچھ تعلق نہیں۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور یہ پہلے  ہی ذبح کر چکے تھے۔(اس خیال سے کہ پڑوس کے لوگ غریب تھے  انہوں نے چاہا کے ان کو گوشت مل جائے) عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس بکری کا چھ ماہ کا ایک بچہ ہے, فرمایا: تم اسے ذبح کر لو اور تمہارے سوا کسی کے لیے چھے ماہ کا بچہ کفایت نہیں کرے گا.
امام احمد نے روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ افضل قربانی وہ پہے جو باعتبار قیمت اعلیٰ ہو اور خوب فربہ ہو۔
چناچہ حضور سراج الفقہاء مفتی نظام الدین رضوی صاحب سے منقول ہے :
قربانی کا جانور ہر طرح کے عیب و نقص سے پاک،فربہ خوبصورت ہو،تاہم کچھ معمولی سا عیب ہو تو وہ معاف ہے شریعت کچھ حد تک اسے گوارا کر لیتی ہے لیکن عیب زیادہ ہو تو شریعت اسے گوارا نہیں کرتی اور  ایسے جانوروں کی قربانی صحیح نہیں ہوتی اس لیے قابل توجہ یہ ہے کہ وہ کون  عیوب و نقاص ہیں جو شریعت کی نگاہ میں ناقابل معافی ہے، یا قابل عفو ہے۔
احادیث نبویہ میں کچھ ایسے عیب دار جانوروں کا ذکر ہے جن کی قربانی صحیح نہیں ہوتی،فقہاء نے بھی اپنی لسٹ میں ان جانوروں کو شمار کیا ہے اور بعض فقہاء نے کہیں کہیں  قربانی صحیح نہ ہونے کی علت بھی بیان فرمائی ہے ہم یہاں ان سب کو سامنے رکھ کر بیان کرتے ہیں جن سے ان کے مسائل بخوبی اجاگر ہو جائیں گے ،انشاء اللہ۔
قربانی کے جانوروں میں دو طرح کے اعضاء پائے جاتے ہیں: کچھ اعضاء وہ ہیں جو اعضائے مقصودہ سے ہیں۔
اور کچھ أعضاء وہ ہیں جو غیر مقصودہ سے ہیں۔
یوں کچھ نہ کچھ فائدہ ان اعضاء کا بھی ہے، مگر شرعاً وہ مقصود نہیں ہے: جیسے سینگ خصیے آلہ تناسل اور مثانہ وغیرہ اعضاء مقصودہ سے نہیں ہیں لہٰذا اگر سینگ اوپر سے ٹوٹ جائے تو یہ عیب نہیں ہے لہذا اس کی قربانی صحیح ہو گی۔ لیکن اگر سینگ سر کے اندر جڑ سے ٹوٹی ہو، گودے سے نکل آئی ہو، تو یہ عیب ہے۔ اس لیے نہیں کہ سینگ نکل آئیں بلکہ اس لئے کہ سر جانور کے اعضاء مقصودہ میں سے ہے تو عضو مقصودہ میں گہرے زخم پیدا ہونے کی وجہ سے اس کی قربانی ناجائز  اور درست نہیں ہے. یوں ہی آلہ تناسل اور دونوں خصیے بھی  اعضائے غیر مقصود سے ہیں  یہی حال مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی کا بھی ہے۔
جانوروں سے مقصود دو چیزیں ہوتی ہیں دودھ اور گوشت ان کے مقاصد  عامہ میں یہی دو چیزیں مقصود ہیں جیسے "اونٹ" سے سواری بھی مقصود ہے گوشت بھی اور دودھ بھی مقصود ہیں اور چھوٹے جانوروں سے دودھ اور گوشت مقصود ہے ان سے سواری نہیں مقصود  ہیں۔
اس تشریح کے پیش نظر آپ اعضاء کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا اعضائے مقصودہ سے ہے اور کون سا غیر مقصودہ سے۔
دوسرا ضابطہ: اعضائے مقصود میں سے اگر کسی عضو کی منفعت بیماری یا عیب کی وجہ سے بالکل فوت ہوجائے ، ختم ہو جائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی،مثلاً جانور کا ایک پاؤں کٹ کر الگ ہو جائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کہ یہ سواری کے لئے براہ راست مقصود ہے۔اور اور چرنے کے لیے،پانی پینے کے لیے بواسطہ مقصود ہے تو یہ کھانے میں بھی  پینے میں بھی اور سواری میں بھی براہ راست یا بالواسطہ مقصود ہے  اس کی منفعت بلکل فوت ہو گئی. لہٰذا ایسے جانوروں کی قربانی نہیں ہوگی یا فرض کیجئے کہ جانور کے پاؤں میں کوئی ایسی بیماری پیدا ہو گئی کہ پاؤں سے چلنے کے لائق نہ رہا یعنی لنگڑا ہو گیا تین پاؤں سے چلتا ہے اور چوتھا پاؤں زمین پر نہیں رکھتا ہے  تو اس پاؤں  کی منفعت جو مقصودہ تھی فوت ہو گئی۔لہٰذا  اس کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔ایک آنکھ پھوٹ جائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کیوں کہ اس آنکھ کی منفعت مقصودہ  ہیں وہ فوت ہو گئی  آنکھ سے اگرچہ براہ راست دودھ نہیں ملتا، کھانا نہیں ملتا اور اس پر سواری نہیں ہوسکتی مگر بالواسطہ یہ آنکھ تینوں کے لیے ممدو معاون ہے۔جانور اندھا , بہرا ہوجائے یا پاگل ہو جائے تو اس کی بھی قربانی صحیح نہیں . پاگل ہو گیا تو اس کے دماغ کی منفعت مقصودہ فوت ہو گئی , بہرا ہو گیا تو کانوں کی منفعت مقصودہ فوت ہوگئی .
تیسرا ضابطہ کچھ اعضا ایسے ہیں کہ  جن میں ایک تہائی سے زیادہ فوت ہو جائے تب بھی شریعت ایسے جانور کی قربانی کو صحیح نہیں مانتی ہے مثلاً بکری ,بھیڑ ہے ان کے دو تھن ہوتے ہیں ایک تھن کسی بھی وجہ سے خشک ہو گیا , اس سے دودھ نہیں آتا یا پیدائشی خشک ہے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کہ اس عضو کی جو منفعت مقصودہ ہے وہ ایک تہائی سے زیادہ فوت ہوگئی لہٰذا اس کی قربانی نہیں ہوگی. بڑے جانور جیسے اونٹنی اور بھینس میں چار لر ہوتی ہیں , ان میں ایک لر اگر خشک ہو جائے تو ان کی قربانی صحیح ہوگی , کیوں کہ چار میں ایک تھن کے خشک ہونے سے ایک تہائی سے کم ہی خشک ہوا . اور اگر دو لر خشک ہو جائیں یا دو لر فوت ہو جائیں تو اس کی قربانی نہیں ہوگی , کیوں کہ دو لر خشک ہونے سے ایک تہائی سے زیادہ منفعت فوت ہوگئی . ( ماہنامہ اشرفیہ اگست 2018 ص:15,16,17 .