محمد صدام حسین برکاتی مصباحی ساؤتھ افریقہ
  
 جب ہم چھوٹے تھے ، عمر بارہ سال سے کم رہی ہوگی اس وقت تک ہمارے گاؤں میں بلکہ اکثر گاؤں میں کثرت سے ,, بندریا مداری ،، بھالو مداری ،، ڈمرو مداری سمیت دیگر بہت سارے بنگالی و غیر بنگالی حضرات آتے اور مداری دکھاکر جہاں اپنی آتش شکم کو بجھانے کا سامان مہیا کرتے وہیں ہم جیسے بے شمار بچوں کے لطف کا ذریعہ بھی بنتے تھے۔
   حالات نے انگڑائی لی ، وقت نے آنکھ مچولی کی ، زمانہ آگے بڑھا ، حادث عالم کی طرح حادث مداری بھی ہوا ، پرانے مداریوں کے کمی کے ساتھ نئے اور چالاک مداریوں کا زبردست ورود ہوا۔
   مداریوں نے اپنی کمی کے باوجود بھی اس قدر ترقی کی اور ملکی معیشت کو پیچھے دھکیل آگے بڑھے کہ آج وطن عزیز کی باعزت کرسی پر بیٹھ مداری دکھایا گیا اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر تالی اور تھالی بجوانے کا کام کیا گیا اور ہمیں یہ اظہار کرتے ہوئے قطعی باک نہیں ہورہا ہے کہ اس مہاماری میں جس طرح اور جس پیمانے پر لوگوں کے پیٹ بھرنے کا کام کیا جانا چاہیے تھا ، نہیں کیا گیا بلکہ صرف تالی اور تھالی بجواکر لطف اندوز ہی کیا گیا اور حد تو تب ہوگئی جب مہاماری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نیا کھیل کھیل ، اربوں ، کھربوں روپے کی موم بتی عوام وخواص سے جلوا ڈالی گئی۔
منہ کے لقمے بھی مانگ لیتا ہے
میرا حاکم بڑا بھکاری ہے
   کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کا نظام درہم برہم  ہوگیا ہے. زندگی کی پہیہ ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے. اس وبا کی وجہ سے جہاں لاکھوں لوگ بیمار اور ہزاروں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے وہیں عالمی سطح پر معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے. ہندوستان میں اس نے ایک خوف ناک صورت اختیار کرلی ہے. تھنک ٹینک نیشنل انسٹیٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا کے وائس چیئرمین راجیو کمار کے مطابق ملک کی موجودہ معیشت و اقتصاد اس قدر سست رو ہے کہ اس کی مثال گزشتہ 70 سال میں ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی۔ 
   ملک میں ویسے ہی بے روز گاری تھی کم لوگ ہی روزگار سے جڑے تھے ان سے بھی روز بروز مہاماری کے پردے میں ملازمتیں چھینی جارہی ہیں. پہلے اقتصادی سست روی کی وجہ سے تقریبا پچاس لاکھ لوگ بے روزگار کیے گئے. کرونا کے باعث لاکھوں ہندوستانیوں کو خلیجی ممالک سے ملازمت چھو واپس ملک آنا پڑا. کئی بڑی بڑی کمپنیوں نے لاکھوں مزدوروں اور ملازموں کو اپنی کمپنی سے نکالا دے دیا.
خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں
نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا
   حکومت اپنے دعوے کے خلاف مہنگائی کو آسمان کی بلندیوں پر لے جا چکی ہے ، ہر طرف اور ہر شعبے میں زبردست مہاماری مچی ہوئی ہے ، لوٹ اور گھسوٹ کا نیا نیا حربہ آزمایا اور اپنایا جارہا ہے ، کبھی چندے کے نام پر خزانہ بھرا جارہا ہے ، کبھی پٹرول و ڈیزل میں ریکارڈ توڑ اضافہ کرکے عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے اور کبھی بے چارے غریبوں کو دھوکہ دے کر پیٹ بھرنے کا انوکھا طریقہ اپنایا جارہا ہے اور حیرت تب ہورہی ہے جب اندھ بھگت سمرتھن سب کچھ دیکھنے اور سہنے کے باوجود بھی ,, ہر ہر مودی گھر گھر مودی کا نعرہ لگا کر بھگوان کا درجہ دے رہے ہیں۔
   انصاف پسند لوگوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ جس ملک کے راجہ کا سینہ 56/ انچ کا ہو اس ملک کے راجا اور پرجا پر 28/ انچ کا بچوں جیسا سینہ رکھنے والا ملک نیپال آنکھ دکھائے گا ، ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے گا اور ہماری زمین کو ہڑپنے کے لیے اپنے ملک میں بل لائے گا اور پاس بھی کروائے گا اور اس کے بعد سیتا مڑھی اور نیپال کے باڈر پر وطن عزیز کے ایک لال کو گولیوں سے بھون دے گا اور ہماری 56/ انچ رکھنے والی سرکار خاموش تماشائی بنی رہے گی ، ہم چین کی ظلم و ستم کی بات نہیں کر رہے ہیں ، چین کی ظلم و بربرتہ کی بات نہیں کر رہے ہیں ، چین کے جبر و استبداد کی بات نہیں کر رہے ہیں ، چین کی جانب سے گھوپے گئے چھورے کی بات نہیں کر رہے ہیں ، چین کی جانب سے اچاڑے گئے بے شمار گھروں کی بات نہیں کر رہے ہیں ، چین کی جانب سے یتیم کیے گئے بچوں اور بیوہ کی گئی عورتوں کی بات نہیں کر رہے ہیں ، چین کی جانب سے شہید کیے گئے 20/ نوجوانوں کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ ہم اس نیپال کی بات کر رہے ہیں جو ہماری خیرات پر پلتا ہے ، ہمارے صدقات و عطیات پر جیتا ہے ، ہمارے امداد و تعاون سے چلتا ہے 
ہوا یہی جو رہے گی تو اے نقیب بہار
کہاں سے آئیں گی رعنائیاں چمن کے لیے
   آج مہنگائی ساتویں آسمان پر پہنچ چکی ہے ، پورے ملک میں مہنگائی کو لے کر ہاہا کار مچا ہوا ، ڈیزل اور پٹرول دونوں برابر داموں میں بک رہے ہیں بلکہ ڈیزل جس سے غریب کسان کھیتی کرتا ہے ، ہمارا پیٹ بھرتا ہے ، ہماری شکم کی آگ کو بجھاتا ہے ، ہمارے منہ میں لقمہ پہنچاتا ہے ، وہی ڈیزل آج پٹرول سے بھی زیادہ داموں میں بک رہا ہے۔ دال ، چینی اور نمک وغیرہ کے داموں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے ، زبردست بڑھوتری ہورہی ہے۔ ان سب کے باوجود ہمارے ملک کا راجہ اسٹیج پر آتا ہے ، مائک سنبھالتا ہے اور تمام ایشوز پر جملوں کی بھرمار اور بوچھار کرتے ہوئے کہتا ہے ,, *بھائیو اور بہنو!* ،، ہمارے ملک میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے ، چین ایک انچ بھی ہماری زمین میں نہیں گھسا ہے ، چین کی ہمت نہیں ہے کہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے ، اگر چین ہمارے ملک یا نوجوانوں پر غلط نظر ڈالتا ہے تو اس کی آنکھ پھوڑ دیں گے ، ٹانک کاٹ دیں گے ، زبان کھینچ لیں گے اور ایسا سبق سکھائیں گے کہ چین کی نسلیں یاد کریں گی۔
نیپال کی کیا ہمت کہ ہماری طرف دیکھے ، اس کے پاس آنکھ ہی نہیں ہے ، نیپال کا ریموڈ کنٹرول ہمارے ہاتھوں ہے ، جب چاہیں اسے مچھڑ کی طرح مسل دیں۔
*بھائیو اور بہنو!* ، ہماری بات دھیان سے سنو ، چین نے جو اٹیک کیا ہے ، ہمارے جوانوں کو شہید کیا ہے ، ماؤں اور بہنوں کا گھر اجاڑا ہے ، نیپال نے جو فائرنگ کی ہے ، ہمارے ناگرک کو شہید کیا ہے ، بعض لوگوں کو زخمی کیا ہے ، کچھ لوگوں کو بندھک بنایا ہے ، غیر قانونی نقشہ پاس کیا ہے ، ہماری زمین پر اپنا حق جتایا ہے ، بہار میں ہمارے بہت سارے پروجیکٹس کو یہ کہہ کر رکوادیا ہے کہ یہ ہماری زمین ہے ، گیس کا دام جو بڑھا ہے ، پٹرول میں جو اضافہ ہوا ہے ، ڈیزل میں جو بڑھوتری ہوئی ہے ، دال ، تیل اور نمک سمیت تمام چیزوں میں جو مہنگائی ہورہی ہے ، اور آپ لوگ جو پریشان ہورہے ہیں ان سب میں کانگریس کا ہاتھ ہے ، کانگریس والوں نے ملک کو لوٹ لیا ہے ، ملک کی سرحدوں کو بیچ دیا ہے ، ملک کی سالمیت کو اب بھی ان کانگریسوں سے خطرہ لاحق ہے ۔ *بھائیو ، بہنو! اب مجھے اجازت دیں اور چھما کریں جلد ہی آپ لوگوں کے سامنے آؤں گا. یہ سن اور دیکھ کر اہل نظر و دانش ہکا بکا ہیں اور زبان حال سے یہ کہ رہے ہیں 

تو ادھر ادھر کی بات نہ کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے دوسروں سے غرض نہیں تیری اگوائی کا سوال ہے
آج ملک کا انصاف پسند طبقہ بڑھتی مہنگائی ، چین کی چال بازی ، نیپال کی دادا گیری اور حکومتی عھدے داروں کی ہر محاذ پر ناکامی دیکھ فکر مند ہے ، چیخ رہا ہے ، چلا رہا ہے اور جب اپنی بات راجہ کے پاس پہنچاتا ہے اور سوال قائم کرتا ہے ، پوچھتا ہے تو جواب دینے کے بجائے کہا جاتا ہے کہ اس وقت سوال کا وقت نہیں ، یہ وقت کچھ پوچھنے کا نہیں ہے ، اور سوال کو سیاسی رنگ دے کر بڑی ڈھٹینائی سے کہا جارہا ہے کہ پلیز! سیاست نہ کریں ، سیاست کے لیے بہت وقت ہے ، بعد میں سیاست کیجیے گا ابھی ملک میں قدرتی مہاماری ہے ہمارے ساتھ کھڑے رہیں اور کاندھے سے کاندھا ملا کر بھارت کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں. مگر خیال رہے.....
قیادت کا یہ مطلب تو نہیں ہے
کہ جو آگے ہو اس کے ساتھ ہو لو

0 تبصرے