"والدین کا ادب"
نام:-محمد صغیر رضوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہید:- حضرت عبداللہ بن عمر ایک بار گزر فرما رہے تھے سامنے سے بدو آیا جو عمر میں بڑا تھا جب حضرت ابن عمر کے پاس پہنچا حضرت ابن عمر نے اپنی پگڑی اتار کر اس کے سر پر رکھ دی اور ادب و غور کے ساتھ اس کی گفتگو سنی جب جانے لگا تو اپنی سواری بھی اسے دے دی-
ہمارے اسلاف میں بزرگوں کا یہ ادب تھا-
بڑوں کا ادب بہت سعادت کی بات ہے- پھر والدین کا ادب تو نور علی نور - جو کھوٹے سکے ہوتے ہیں والدین کے ادب کی برکت سے ہی ان کے بھاؤ چڑھ جاتے ہیں -
نفس مضمون:- اسلام میں والدین کے حقوق ان کی فرمانبرداری کی بڑی اہمیت ہے والدین کی اطاعت کا ارادہ اور ان کی خدمت کا ذوق رکھنے والے کے لئے اسلام میں بڑی نیک بختی تصور کی جاتی ہے قرآن میں رب کریم نے ارشاد فرمایا"و بالوالدين احسانا" اور فرمایا"صاحبها في الدنيا معروفا" یعنی دنیا میں حسن اخلاق اور احسان و تحمل کے ساتھ ان سے پیش آؤ -
ہر شخص کا اپنے بڑوں کے ساتھ ادب کا طریقہ کار الگ الگ ہے - لیکن اسلام نے جو ہمیں ادب کا طریقہ بتایا ہے اس میں دنیا کے تمام طریقے مضمر ہیں وہ ہے بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک اور حسن اخلاق و تحمل -
اس طریقے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک کامل دین ہے ۔
کچھ آداب والدین درج ذیل ہیں:-
والدین کی بات توجہ سے اور مند ہو کر سننا-
والدین کے ہو تو خود نہ بیٹھ جائے-
ان کے حکم پر اور عمل پیرا ہو-
ان کے لئے نرم دلی اور عاجزی کے بازو بچھائے-
اگر بزرگوں کو کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا انتظام انصرام کرے-
اگر کوئی بات بار بار کہے تو بہت نرمی کرے-
ان کے سامنے سر جھکا کے رکھے-
ان کے ساتھ احسان کر کے منان نہ بنے-
اگر کوئی سخت حکم دے بغیر چوں چرا کے بغیر کسی شرط کے اس پر فورا عمل کرے-
ان کی نافرمانی نہ کرے ان سے محبت و انسیت رکھے-
یہ ان کی حیات کے حقوق تھے-
کچھ حقوق فوتگی کے بعد کے بھی ہیں-
مثلا انتقال کے بعد دعائے مغفرت کی کثرت کرنا-
اپنی زندگی کو رب کے در پر گزارنا- ان کے اہل قرابت و احباب کی عزت کرنا-
اور ان دین و امانت ادا کرنا -
ان کے جائز وصیت پر عمل کرنا-
ہر جمعہ کو فجر کے بعد ان کے قبر کی زیارت کرنا-
والدین کی نافرمانی کے تعلق سے متعدد حدیث و اقوال ائمہ کرام وارد ہیں امام اہل سنت نے اپنی کتاب" الحقوق لطرح العقوق" میں صحاح ستہ ودیگر کتب احادیث کے حوالے سے کئی احادیث نقل کی ہیں جس میں سے کچھ نقل کرتا ہوں -
۱:- "ثلاثۃ لا یقبل اللہ منہم صرفا ولا عدلا عاق ومنان ومکذب بقدر " یعنی اللہ تعالی تین شخص کا کوئی عمل قبول نہیں فرمائے گا ماں باپ کا نافرمان اور احسان جتانے والا اور تقدیر کو جھٹلانے والا-
۲۔"رضى الله في رضى الوالد و سخط الله في سخط الوالد"
یعنی اللہ کی رضا مندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے -
ایک شخص نے اپنی ماں کو کندھے پر بٹھا کر حج کروایا پھر کسی سے پوچھا کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کر دیا فرمایا تمہاری ماں نے تمہیں پیدا کرتے وقت جو چیخیں نکالی تھی ان میں سے ایک چیخ کا بدلہ بھی ادا نہ ہوا -
ہماری پیدائش سے لیکر بالغ ہونے تک اور بعض اوقات شادی ہونے تک ہمارے والدین جو سختیاں جھیلتے ہیں ان کی کوئی حد نہیں -
بچپن میں غریب ماں سرد موسم میں خود گیلے بستر پر سو جاتی ہے لیکن اپنے بچے کے لئے فوراً فرش تبدیل کرتی ہے کہ زکام نہ ہو جائے-
بچہ کس وجہ سے رو رہا ہے یہ صرف ماں سمجھ سکتی ہے بس -
ہمیں اچھا انسان بنانے کے لئے والد صاحب بڑھاپے میں جب کمر سیدھی نہیں ہوتی اس وقت بھی مزدوری کر کے خرچے پورے کرتے ہیں -
والدین کے احسانات بہت ہے(رضى الله عنهم و جزاهم الله خيرا)
والدین کو خوش رکھنے میں اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے -
جسم کی تعام ہے اور روح کی غذا والدین کی خدمت ان کی اطاعت اور نیک افعال کرنا ہے -
وہ اولاد دنیا و آخرت میں کامیاب ہیں جن کے ماں باپ دنیا سے راضی ہو کر گئے -
اختتامیہ:- حدیث شریف میں ہے "ہما جنتک و نارک" جو شخص نعمت پر شکر اور صبر کرے گا اور والدین جیسی نعمت کی خدمت اور رواداری کرے گا تو وہی شخص کامران اور بامراد ہے -
رب قدیر نے ہر شخص کو والدین کی صورت میں نعمت عطا فرمائی ہے - لیکن اس نعمت کی قدر ہمیں جب معلوم ہوتی ہے جب یہ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں -
اللہ ہمیں والدین کی قدر و اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے -
آمین بجاه النبي محمد صلى الله عليه وسلم
نام:-محمد صغیر رضوی
رول نمبر:-46
سکونت:- گونڈہ
0 تبصرے
شکریہ ہم تک پہنچ نے کے لیے