تحریر:                    محمد ایوب مصباحی
قسطِ سوم ۔             مطالعہ:البریقہ شرح الطریقہ
موضوع:                  زبان کی تباہ کاریاں
     زبان کی دوسری تباہی غیبت ہے جو حرامِ قطعی اور نہایت ہلاکت خیز گناہِ کبیرہ-
     غیبت کسے کہتے ہیں
     اپنے اس بھاٸی کی جو مخاطب کے نزدیک معین و مشخص ہے براٸیاں بیان کرنا یاان کی نقل اتارنااور   گالی یا بغض کے طورپر ہاتھ اور دیگر اعضاۓ جوارح سے ان کو سمجھانا غیبت ہے-
     بالجملہ غیبت یہ ہے کہ آپ اپنے بھاٸی کو ایسے وصف سے یاد کرو کہ جب اسے اس کےبارے میں پتا لگے تو اسے برا لگے عام ازیں کہ وہ وصف اس کےبدن، نسب،عادت یا قول وفعل سے متعلق ہو حتی کہ دین و دنیا اور کپڑے گھر اور چوپاۓ وغیرہ سے بھی، پھر غیبت کا انحصار صرف زبان پر ہی نھیں بلکہ تعریض اور ایما ٕ ورمزو غمز یعنی مطلقا اشارہ یا سر اور بھٶوں سے اشارہ یا اعضا ٕ کی نقل و حرکت اور کتابت اور ہر اس چیز سے ہوجاتی ہے جس سے مقصود حاصل ہوجاۓ-
      غیبت کی شرعی حیثیت
     غیبت حرامِ قطعی ہے اوراس پر امت کا اجماع ہے جس کی تاٸید اس آیتِ قرآنی سے ہوتی ہے، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ”وَلَا یَغتَب بَعضُکُم بَعضًا أَیُحِبُّ أَحَدُکُم أَن یَّأکُلَ لَحمَ أَخِیہِ مَیتًا فَکَرِھتُمُوہٗ وَاتَّقُوا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ تَوَّابُٗ رَّحِیمُٗ“ترجمہ: ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں سے کوٸی پسند رکھے گاکہ اپنے مرے بھاٸی کا گوشت کھاۓ تو یہ تمھیں گوارہ نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے(کنز الایمان)
     صحیح ابنِ حبان میں حضرتِ ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:کہ”یقیناانسان کو اس کا نامہ اعمال کھول کر دیا جاۓ گا تووہ کہے گا:اے میرے پروردگار! میری فلاں فلاں نیکیاں کہاں ہے جو میں نے کی تھیں؟ وہ میری نوشتے میں نھیں ہیں،تو رب اس سے فرماۓ گا:تیرے لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے مٹادی گٸیں اور جس کی تونے غیبت کی اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی گٸیں“
     حضرتِ ابو امامہ سے دوسری روایت ”اخلاق کی براٸیاں“ کے بارے میں ”خراٸطی“سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک بندے کو روزِ قیامت اس کا نوشتہ کھول کر دیا جاۓ گا تو وہ اس میں ایسی نیکیاں دیکھے گا جو اس نے نھیں کی ہوں گی،تووہ عرض کرے گا :اے میرے پروردگار! یہ نیکیاں تو میں نے نھیں کیں، تو ارشاد ہوگا یقینا یہ لوگوں کے تیری غیبت کرنے کی وجہ سے لکھ دی گٸیں“
     رسالہ قشیریہ میں ہے”کہا گیا ہے”جس کی غیبت کی گٸی تو اللہ تعالی اس کے آدھے گناہ معاف کردیتا ہے“
      معجم کبیر للطبرانی میں حضرتِ ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے دنیا میں اپنے بھاٸی کا گوشت کھایا تو اسے قیامت کے دن اس کے قریب کیا جاۓ گا اور اس سے کہا جاۓ گا اس مردار کو کھا! جیسے تونے اسے زندہ کھایاتو وہ اسے کھاۓ گا، اس کا منہ بگڑ جاۓ گااور چینخے گا“ امامِ ترمذی نے فرمایا: ”کہ غیبت کرنے والے کا منہ ایسے بگڑ جاۓ گا کہ اس کا اوپر کا ہونٹ سر تک ہوگا اور نیچے کا ہونٹ ناف تک“
       مسندِ ابی یعلی میں حضرتِ ابو ہریرہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں:”ہم نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس تھے تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کسی ضرورت سے چلا گیا، تو صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ!فلاں کتنا کمزور ہے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ”تم نے اپنے ساتھی کی غیبت کردی اور اس کا گوشت کھالیا“-
      ابنِ ابی الدنیا نے حضرتِ عاٸشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، فرماتی ہیں:” میں نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس موجود تھی تو میں نے ایک گذرتی عورت کے بارے میں کہا: یقینا یہ بڑی درازقد ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھینکو! پھینکو! تو آپ نے گوشت کا ٹکڑا پھینک دیا“
   غیبت کی تعریف حدیث شریف میں
    مسلم شریف میں حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تمھیں معلوم ہے غیبت کیا ہے؟ عرض کیا گیا اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور اس کے رسول، فرمایا:تمھارااپنے بھائی کو ایسے وصف سے یاد کرنا جو اسے ناپسند ہو غیبت ہے، عرض کیا گیا آپ کا کیا خیال ہے اگر وہ بات میرے بھائی میں موجود ہو جو میں کہ رہا ہوں؟ فرمایا:جو تم کہ رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہو تو تم نے اس کی غیبت کردی اور اگر اس میں نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان لگادیا۔
     ابو داؤد شریف میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ "جب مجھے میرے رب نےمعراج کراٸي تو میں ایسی قوم کے پاس سے گذرا جن کے تانبے کے ناخون تھے جن سے وہ اپنے چہروں کو کھرچ رہے تھے، میں نے کہا:اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے تھے اور ان کی بےعزتی کیا کرتےتھے"
مناوی نے طیبی سے نقل کیا کہ چہرا کھرچنا اور سینا پیٹنا نوحہ کرنے والی عورت کی صفت ہے اور غیبت وچغلی کرنا بھی انھیں میں زیادہ پایا جاتاہے تو انھیں انھی کے مناسب جزا دی گئی۔
    حجۃ الاسلام امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا:کہ لوگوں کی عزت تار تار کرنے والے کو میدانِ محشر میں کتے ،لوگوں کا مال ناحق کھانے والے کو بھیڑیے، متکبر کو چیتے اورناحق سرداری طلب کرنے والے کو شیر کی شکل میں پیش کیا جاے گا؛ اس لیے کہ دنیا میں یہ صورتیں ان معانی پر غالب ہیں، اور یہ غیبت پر وعیدِشدید ہے۔
    ابو داؤد شریف میں حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں: کہ"میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ کو صفیہ کا چوٹا قد کافی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یقینا تم نے ایسا بول بولا ہے اگر اس سے سمندر کو ملایا جاے تو یہ سمندر پر غالب آجائے ۔
     رسالہ قشیریہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ موسی علیہ السلام کو وحی کی کہ"جو شخص غیبت سے تائب ہوکر انتقال کرجائے تو وہ جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے آخری شخص ہوگا اور جو اس پر اصرار کرتے ہوئے دنیا سے جائے تو وہ ان میں سب سے پہلا شخص ہوگا جو جہنم میں جائیں گے"
   حضرتِ عوف نے فرمایا:"میں ابنِ سیرین کے پاس داخل ہوا تو میں نے حجاج بن یوسف کا اس کی عدمِ موجودگی میں تذکرہ کیا تو ابنِ سیرین نے فرمایا: "بیشک اللہ تعالیٰ عادل حاکم ہے وہ جس طرح چاہے گا حجاج کی گرفت فرمائے گا لیکن جب تم کل اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروگے تو تم نے آج جواس کےسب سے چھوٹے گناہ کاتذکرہ کیا ہوگا وہ کل تمھارے لیےحجاج بن یوسف کے سب سے بڑے گناہ سے بھی سخت ہوگا"
         انسان کا طریقہ کیا ہونا چاہیے 
    حضرتِ یحییٰ بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: مومن کے اندر تین عادتیں ہونی چاہیے اگر تم اسے فائدہ نہ پہونچا سکو تو نقصان بھی نہ دو، اگر خوش نہ کرسکو تو غمزدہ بھی نہ کرو اوراگر اس کی تعریف نہ کر سکو تو برائی بھی نہ کرو۔
     غیبت کون کونسی چیزوں میں ہوسکتی ہے 
     غیبت دین و دنیا کے عیبوں کے ذکر کو عام ہے مثلا فلاں بے نمازی ہے، شرابی ہے، چور ہے؛ اور جیسے فلاں لنگڑا ہے، اندھاہے گونگا ہے وغیرہ۔ یہی مذھبِ جمہور ہے۔ لیکن اجماع اس بات پر منقول ہے کہ دوسے کے ناپسندیدہ عادت کا ذکر دین سے متعلق ہو یا دنیا سے غیبت اس وقت ہے جب یہ نفسانی غرض کی بنا پر ہو ورنہ اگر دینی مفاد کی خاطر ہو تو غیبت نہ ہوگی۔
     غیبت کے متعلق ایک اصلِ کلی
     فاسقِ معلن کے عیب کا اظہار غیبت نہیں ہے جیسے کوئی شخص نمازی ہو روزہ دار بھی ہو لیکن ہاتھ سے دوسرے کو تکلیف پہونچاتا ہو مثلا مار پیٹ کرتاہو، کسی کا مال غصب کرلیتا ہو، چوری کرتا ہو وغیرہ یا زبان سے دوسرے کو تکلیف پہونچاتاہو جیسے گالی گلوچ کرتا ہو، بہتان تراشی کرتا ہو، چگلی کرتا ہووغیرہ تو اس کے ان عیبوں کا ذکر کرنا غیبت نھیں ہے۔
    غیبت کے باب میں عددِ کلی
     چھ مقام ایسے ہیں جہاں برائی کا ذکر غیبت نہیں ایک ظلم کی فریاد، دوسرے شیء منکر کو ختم کرنے کے لیے استغاثہ ، تیسرے استفتاء کرنا، چوتھے مسلمانوں کو شریر کے شر سے بچانا، پانچوے کسی کا نام اذیت رساں ہو جیسے اعمی ، اعور یعنی اندھا بھینگا وغیرہ اور اس کا تعارف اس کے بغیر ممکن نہ ہو اور چھٹا مجاھرِ فسق ہو۔
کتبہ:محمد ایوب مصباحی، استاذ دارالعلوم گلشنِ مصطفی، بہادرگنج،سلطانپور، مراداباد،یوپی، الھند؛ ۔
5/شوال المکرم1441ھ بروز جمعہ
مطابق 29/مئی 2020ء