از: مفتی محمد انورنظامی مصباحی 
 قاضی ادارہ شرعیہ  جھارکھنڈ


حقوق انسا نی کی تعریف:
حقوق انسا نی وہ حقوق ہیں جن کا بحیثیت انسا ن ہر فرد بشر کو اختیا ر ہے ۔ ہر انسا ن پیدا ئشی طور پر برابر ہے ۔ رنگ،نسل،جنس،زبان ، علاقہ،قومیت ،مال ودولت کسی بھی بنیا د پر ان میں تفریق نہیں کی جا سکتی ۔ ( [[N.C.E.R.T  भरत और विशव برائے درجہ ہشتم ،ص:۲۶۹)
مجلس اقوام متحدہ کی قرار داد:
مجلس اقوام متحدہ نے ۱۰؍ دسمبر ۱۹۶۴ءکو ’’حقوق انسانی کی قرار داد ‘‘پاس کیا اور پوری دنیا میں اسے  مشتہر کیا اس قرا رداد کے بعض دفعات یہ  ہیں:
دفعہ نمبر [۱]: ہر انسان آزاد پیدا ہو  تا ہے ۔اس لئے انسانی شرافت اور حقوق ہر ایک کے لیے ہوں گے ۔اور ہر انسان عقل وضمیر کا سرما یہ بھی رکھتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر  ایک شخص دوسرے کے لئے برا درانہ برتا ؤرکھے ۔
دفعہ نمبر[۴]:کوئی کسی  کی آزادی سلب نہیں کرے گا اور نہ کوئی کسی کو غلام بنا ئے گا ۔ حریت ِفکر ،آزادی را ئے اور مذہبی خود مختاری ،ہر انسا ن کا حق ہوگا اور یہ حق اسے  اپنے دین اور اعتقاد کی تبدیلی کا اختیا ر دیتا ہے تعلیم و تربیت ، عبا دات  اور دینی شعائر کے اظہار کا بھی ہر ایک فرد کو  پورا حق ہو گا ۔ہر انسان کو برابر معاشی حقوق حاصل ہونگے جو اس کی اور اس کے خا ندان کی خوشگوار زندگی کے لئے کا فی ہو ں گے ۔
دفعہ نمبر [۲۶]: والدین کو اپنی اولاد کی تربیتی معاملا ت میں برتری کا حق ہوگا ۔ 
دفعہ نمبر [۲۷]:  اجتما عی تہذیب کو فروغ دینے میں ہر انسان کو آزادانہ اشتراک کا پورا حق ہوگا ۔(اسلام اور امن عالم ،ص :۱۶ ،المنجد فی اللغۃ و الاعلام)
اقوام متحدہ کی قرار داد کا آئین ہند پر گہرا اثر پڑا ہے جو ’’بنیا دی حقوق‘‘ میں نما یا ں ہے ۔ دستور ہند میں شہریوں کے جوبنیا دی حقوق شما ر کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں :
۱۔برابری کا حق (RIGHT  TO  EQUALITY)
۲۔آزادی کا حق  ( RIGHT TO  FREEDOM)
۳۔ مذہبی آزادی کا حق  (RITGHT TO FREEDOM OF RELIGION)
۴۔ تہذیبی اور تعلیمی حقوق(CALTURAL EDUCATIONAL RIGHTS)
 ۵۔دستوری داد رسی کا حق                      (RIGHT OF CONSTITUTIONAL)
۶۔استحصا ل کے خلا ف حق ( RIGHT AGAINS EXPLOITATION)       
اقوا م عالم نے جس حریت آدمیت اور جن حقوق انسا نی کی ضرورت بیسویں صدی میں عا لمی جنگوں کی تبا ہ کا ریوں کے بعد محسوس کی اور انہیں انسا نو ں کی بقا اور عا لمی امن و سلامتی کے لئے ضروری قرار دیا ان حقوق انسا نی اور حریت آدمیت کی تعلیم تقریبا تیرہ صدیوں قبل ہی مذہب اسلام نے دی تھی ۔ اور قرآن عظیم انسانی حقوق اور انسا نی عظمت کی پا سداری چھٹی صدی عیسوی سے ہی کر رہا ہے ان قوا نین اور  اور انسا نی اقدار وحقوق کی حفاظت کرنے وا لے اصول و قوا نین پر عمل کرکے ایک طویل زما نہ فیضیاب ہو چکا ہے ۔ اور اپنے حدود ولایت سے ظلم و تشدد اور دہشت گردی کو ختم  کرکےامن و سلامتی کے قا بل تقلید نمونے پیش کرچکا  ہے ۔
آج پوری دنیا میں صرف انہیں قوا نین پر عمل کر کے امن قا ئم کیا جا سکتا ہے جو قرآن نے عطا کیے ہیں ۔ان قرآنی اصو لو ں پر غا ئرا نہ نظر ڈا لیے اور آج کی دنیا کے اصول حقوق انسا نی کو دیکھئے ، اکثر دفعا ت پر انہیں قرآنی اصولوں کی گہری چھا پ نظر آئے گی ۔ اس کے با وجود دنیا کا ایک متعصب طبقہ یہ کہتے نہیں تھکتا کہ قرآن انسا نی حقوق پامال کرنے کا درس دیتا ہے ۔(معاذ اللہ)
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھی دھڑکنیں
جب بولنے لگے تو ہمیں پر برس پڑے
حقوق و حرمت انسا نی کے تحفظ کی ضما نت دینے وا لے قرآنی اصولوں کا ذیل میں ایک اجما لی جائزہ پیش ہے :
تمام انسا ن برابرہیں :
مسا وات اور برابری آج کا ایک اہم نعرہ ہے  دنیا کا ہر فرد قومی، لسا نی ، خاندانی اور ہر قسم کی تفریق کو انسا نی معا شرہ کے لئے نا سور با ور کر چکا ہے ۔ اور مسا وا ت ِ انسا نی کا علم بردار نظر آتا ہے ۔ قرآن عظیم نے، جو خا لق ارض و سما کا کلام ہے ، برملا یہ فرمادیا  ہے کہ تمام  انسا ن برابر ہیں اگر کوئی  عزت چا ہتا ہے تو اپنے سیرت و کردار کوسنوا رے  ۔ 
۱۔یا ایہا الناس انا خلقنا کم من ذکر و انثی و جعلنا کم شعوبا وقبا ئل  لتعارفو ان اکرمکم عند اللہ اتقکم.(القرآن ۔الحجرات،۴۹)
ترجمہ : اے انسانو!یقیناََََ ہم نے تم کو ایک ماں باپ سے پید ا کیا تمہارے خاندان اور قبیلے اس لیے بنا دیا کہ تم آپس میں پہچانے جاؤ ۔تم میں سے اللہ کے حضور وہی عزت والا ہے  جو زیادہ پرہیز گار ہے ،،
پیغمبر اعظم ﷺنے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوے فرمایا : ’’کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے نہ عجمی کو عربی پر۔ نہ گورے کو  کا لےپر  ترجیح ہے نہ  کا لےکو گو رے پر۔ہاں حسن ِ سیرت کی بنیاد پر فضیلت ضرور ہے ،،:(زاد المعاد ،ج:۲، ص: ۱۵۸ ،اسلام اور امن عالم، ص :۸۳)
۲۔یا ایھا الناس اتقوا ربکم  الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا و بث منھا رجالا کثیرا و نساء(القرآن ۔النساء۔۴)
ترجمہ : اے انسانو! اپنے  رب سے ڈرو  جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے  اس کا جو ڑ ا بنا دیا     اور                   دونوں سے کثیر مرد و عورت  پھیلائے ۔
رسول اکرم ﷺنے اپنے آخری حج کے موقع پر جو تاریخی خطاب فرمایا تھا اس میں پوری انسانیت  کی فلاح اور ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ملتی ہے ۔انسانی مساوات پر آپ کے خطا ب کا ہر حصہ کس قدر واضح اور روش ہے :
۱۔الناس کلھم بنو آدم و ا ٓد م خلق من ترا ب:(سنن ابو داؤد باب التفاخر بالاحساب / اسلام اور امن عالم ) 
ترجمہ :’’ تما م انسا ن آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں ۔‘‘ 
۲۔الناس کلھم عیال ۔(صحیح مسلم ،کتاب العتق ۔اسلام اور امن عالم )
 ’’ تمام انسان ایک خاندان ہیں۔‘‘ 
صحیح بخاری میں خطبہ حجۃ الوداع کا ایک حصہ یوں ہے:
۳۔الا ان اللہ حرم علیکم دماء کم و اموا لکم کحرمۃ یومکم ہذا فی بلد کم ہذا فی شھرکم ھذا ۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب حجۃ الوداع عمدۃ القاری ۔ج ۱۸ ،ص۱۵)
ترجمہ : ’’سنو ! اللہ تعا لی نے تمہارے اوپر ایک دوسرے کا خون اور مال حرام کر دیا ہے ۔ جس طرح یہ حج کا دن اس محترم  شہر میں اس عظمت والے مہینے میں قا بل احترام ہے ’’اور یہ فرمان کتنا وا ضح ہے انسا نی مسا وات کی تعلیم پر ۔‘‘
۴۔لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی و لا لابیض علی الاسود و لا اسود علی ابیض الا با لتقوی ۔ (زاد المعاد،ج:۲،ص: ۱۸۵،اسلام اور امن عالم، ص: ۸۳)
ترجمہ : ’’عرب کے کسی باشندے کوغیر   عرب پر او ر غیر عرب کو کسی عربی پر کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں ،فضیلت کا معیار محض سیرت و کردار ہے۔‘‘
عدل سب کے لئے :
مسا وات انسا نی کا تقا ضا یہ ہے کہ قا نون کی نظر میں بڑا چھوٹا دوست ،دشمن سب برابر ہو ں ۔ قرآن عظیم میں ہے :
۱۔یا ایھا الذین اٰمنو کونو قوامین للہ شھداء با لقسط ولا یجرمنکم شناٰن قوم علی ان لا تعدلو ۔اعدلو ھو اقرب للتقوی ۔( القرآن ، المائدہ ،۹)
ترجمہ ۔’’اے ایمان والو اللہ کے حکم  پر سختی سے قائم ہو جاؤ اور انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان سے عدل نہ کرو ۔ہر حال میں عدل کرو یہ روش تقویٰ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔‘‘
چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے  مسلما ن اور یہو دی کے ما بین مقدمہ میں یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا تھا ۔
۲۔ان اللہ یامرکم بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربا وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی یعظکم لعلکم تذکرون۔ (القرآن ۔النحل ۔۹۰)
ترجمہ : ’’بیشک اللہ تعالیٰ انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے منع فرماتا ہے ۔تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو ‘‘
یا ایھا الذین اٰمنو کونو قوامین بالقسط شھداء للہ و لو علی  انفسکم اوالوالدین ا والاقربین ان یکن غنیااو فقیرا فاللہ اولیٰ بھما فلا تتبعو االھو یٰ ان تعدلو ا ان تلو وااو تعرضو فان اللہ کان بما تعملون خبیر ا(القرآن ،النساء۔۱۳۵)
اے ایمان والو! انصاف پر سختی سے قائم ہو جاؤ اللہ کے لئے گواہی دینے والا بن کر چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو تمہارے ماں باپ  کا ، یا رشتہ داروں کا ،جن کے خلاف گواہی دو وہ مالدار ہو غریب اللہ کو ان کا زیادہ اختیار ہے ۔خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ جا پڑ و اگر تم ہیر پھیر کروگے تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ،،
یہی وجہ ہے کہ  امیر المؤمنین حضرت عمر  فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے پر بھی حد جاری فرمایا اور سزا دی ۔
ان اللہ یامرکم ان تؤدوا الامانات الیٰ اھلھا  واذا حکمتم بین الناس ان تحکمو ا بالعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ ان اللہ کا ن سمیعا بصیرا ۔(القرآن ،الشوری۔۱۵)
ترجمہ :’’بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو ۔اور جب لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے ۔‘‘
ایک مقام پر رسول اکرم ﷺکو حکم ہوا کہ آپ فرما دیجئے ’’وامرت لا عدل بینکم‘‘ ’’مجھے حکم ہو ا کہ میں تم میں انصاف کروں ‘‘
قرآن عظیم میں  ہی حضرت داؤد  علیہ السلام کے تذکرہ  میں آیا ہے ۔یا داود اناجعلنک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ۔ (القرآن،الشوری۔۹)
ترجمہ :’’ائے داؤد ۔ہم نے تمہیں زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے لوگوں میں صحیح فیصلہ کرو ۔‘‘
اسلامی سزاؤں میں عدل وانصاف اور مساوات کی ایک جھلک اس آیت کریمہ میں ملاحظہ کریں :
ان النفس بالنفس والعین بالعین و الانف بالانف والاذن بالاذن والسن با السن والجروح قصاص ۔(القرآن ،المائدہ ۔۴۶)
’’جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ ،ناک کے بدلے ،دانت کے بدلے دانت ،اور زخموں میں بدلہ ہے ۔‘‘
اتنے واضح اور روشن انصاف اور مساوات انسانی کے اصول جو قرآن نے دیئے  ہیں اس کی مثال انسانوں کے بنائے ہوے قوانین میں کہاں مل سکتی ہے ؟پھر قرآن عظیم کی مخالفت حقوق انسانی کے ان زریں اصولوں کی مخالفت نہیں تو اور کیا ہے ۔
معاشی حقوق :
انسانی زندگی میں معاش ایک اہم حاجت و ضرورت ہے ہر انسان کو زندگی کے لیے معاش کا پیدائشی حق ہے بحیثیت انسان روٹی کےحصول کے لئے  تگ و دو اور جائز طریقہ معاش کے اختیار کا حق ہر انسان کو ہے ۔رب کائنات نے روئے زمین میں معاش کے لئے بے شمار ذخائر پیدا کر دیئے ہیں اور  انہیں تمام انسانوں کے لئے عام کر دیا  ہے  قرآن میں معاش کے ان ذرائع کی عمومیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے ۔
وجعلنالکم فیھا معائش ومن لستم لہ برازقین۔ (القرآن ،الحجر:۲۰ )
ترجمہ : ’’ تمہارے لئے اور ان کے لیے جنہیں تم روزی نہیں دیتے ہم نے زمین میں معیشت کے سامان پید ا کر رکھے ہیں ۔‘‘
ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا 
(۲) ھو الذی خلق کل ما فی الارض جمیعا۔(البقرہ ۔۳۹)
ترجمہ: ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے بنایا ہے۔‘‘
(۳) وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا۔ (ھود،۶)
ترجمہ :’’روئے زمین پر چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم میں ہے،،معلوم ہو ا کہ دولت اکٹھا کرنے اور جائداد رکھنے کا حق ہرانسان کو  برابر ہے۔کیونکہ خالق انسان نے روئے زمین میں ذرائع معاش کو تمام انسانوں کے لئے عام کررکھا ہے۔اس سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘
مذہبی آزادی :
اسلام مذہبی امور میں زبردستی کا قائل نہیں یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی انسان دامن اسلام سے وابستہ ہوئے وہ سب کے سب اسلامی مساوات انسانیت کی تعلیم اور حقوق انسانی کے تحفظ کی بنیاد پر نہ کے طاقت کے زور پر ۔چنانچہ اسلامی ریاست میں مسلم و کافر دونوں طرح کے شہری ساتھ زندگی گزارتے نظر آئے غیر مسلموں کو ان کے دین سے منحرف کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کبھی نہ ہوا ۔چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
لا اکراہ فی الدین  ۔(البقرہ۔۲۵۹)  ’’ترجمہ: ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں ‘‘ 
کتاب الاموال میں ہے :لا یکرھون علی دینھم ،،(کتاب الاموال لا بی عبید،ص:۱۴۰  ، اسلام اور امن عالم ) 
ترجمہ:’’ان کے دین میں کوئی کسی قسم کی زبردستی نہ کی جائے۔‘‘
لا یحال بینھم و بین شرائعھم۔ (تاریخ طبری ۔اسلام اور امن عالم ص ۔۲۰)
ان کے مذہبی امور میں روکاوٹ نہ پید ا کی جائے،،اسلامی ریا ستو ں میں غیر مسلموں کو برابر کے حقوق دئے گئے ۔
فرمان رسول ہے : ’’دماءھم کد مائنا و اموالھم کا موالنا ‘‘ ان خون ہمارے خون کی طرح ہیں اور ان کے مال ہمارے مالوں کی طرح ہیں  ۔
’’لھم ما للمسلمین و علیھم ما علی المسلمین‘‘
ان کو وہی حقوق ملیں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور پر وہی جواب دہی ہوگی جو مسلمانو ں کی ہے ۔(بدائع ،۱۴۹۔ ۷)
حقوق نسواں:
آج مغرب زدہ معاشرے میں اسلام پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کی حق تلفی کی گئی ہے انہیں فطری حقوق سے محروم رکھا گیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ مگر یہ سب لا علمی یا عصبیت کی دین ہیں قرآن وسنت کے غیر جانبدا را نہ مطا لعہ سے عیا ں ہوگا کہ اسلام نے نہ صرف یہ کہ عورتو ں کی فطری حقوق کی حفا ظت کی ہے بلکہ جو مرا عات و تحفظا ت انہیں دامن اسلام میں حا صل ہیں وہ کہیں نہیں عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینے وا لا اسلام ہے اس سے قبل عورتو ں کی حا لت کیا تھی ؟ عرب میں عورتوں کی حیثیت با زا ر کے ما ل سے زیا دہ نہ تھی وراثت میں تقسیم کر لی جا تی تھی ۔بیٹی کی پیدا ئش کوعار سمجھا جا تا تھا بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیا جا تا تھا ۔ ہندوستا ن میں بھی اسلام سے پہلے عورتو ں کو معا شرتی حقوق حا صل نہ تھے بد قسمتی سے اگر کوئی بیوہ ہو جا تی تو اسے بھی شوہر کی چتا کے ساتھ زندہ جلنے پر مجبور کر دیا جا تا تھا ۔ اسلا می اثر سے یہ رسم بدختم ہو ئی  ۔
مگرآج بھی کہیں کہیں اکا دکا وا قعا ت سا منے آجا تے ہیں اور آج جب زندہ جلنے پر مجبور نہیں کیا جا تا تو کم از کم دوبا ر ہ شا دی کر نے کے حق سے محروم کر کے زندگی بھر احساس کی آگ میں جلنے پر مجبو ر کیا جا  رہا ہے ۔ مرد تو عورت کے مرنے پر دوسری شا دی کر لیتے ہیں مگر عورتو ں کو اس کی اجا زت ہندوستا نی سما ج میں اب بھی نہیں ۔ یو رپ نے عورت کو انسانی ترقی کی راہ میں رکا وٹ قرار دے رکھا تھا ۔ 
عورتوں  کی اس مظلومیت پر سب سے پہلے اسلام نے ترس کھا یا اور ان کے لبو ں پر مسکراہٹ نظر آنے لگی ۔ قرآن نے کیا پیا م مسرت سنا یا  ’’ھن لبا س لکم و انتم لباس لھن۔‘‘ (القرآن ،البقرہ ۔۱۸۷) ترجمہ : ’’عورتیں تمہا رے لئے لبا س ہیں اور تم ان کے لئے ۔ ‘‘
کتنا پیا را پیغا م ہے عورتیں  تمھارا لبا س ہیں تم عورتو ں کے لباس ہو ۔ لبا س ہر طرح کے آلام ۔جا ڑا ، گرمی ، برسا ت ، دھوپ ، لو ،تپش ، سردی سے بچا تا اور زینت و آرا ئش ،  کا سامانان بنتا ہے ۔ عورتوں کو وبال جان سمجھ کر زندگی سے محروم نہ کرو ۔ یہ تمھیں آرام و آرائش اور چین وسکون عطا کر کے  ہر طرح کے ذہنی جسما نی مصا ئب و آلام سے محفوظ رکھیں  گی ۔ اور تمہیں بھی تو ان کی زندگی کا دکھ درد سمجھنا ہے تم بھی ان کے لئے زینت و آرائش عیش و آرام اور تحفظ و عصمت کا سا ما ن بن جاؤ ۔ پھر جس طرح تمہا را ان پر حق ہے ان کا بھی تو اسی طرح تم پر بھی حق ہے ۔
فرمان الٰہی تو سنو : ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجۃ واللہ عزیز حکیم (القرآن،البقرہ۔۲۲۸)
ترجمہ: ’’اور عورتوں کا اسی طرح تم پر حق ہے جس طرح تمہارا  ان پر ہاں مردوں کو عورتوں پر کچھ فضیلت ضرور ہے اللہ عزت اور حکمت والا ہے ۔‘‘
عورتیں پیدائشی طور پر ایسی ہیں کہ اپنی عصمت کی حفاظت کے لیے انہیں مردوں کا سہارا ضروری ہے ۔مرد ان کے تحفظ کا سامان بنتے ہیں ۔ان کا اخراجات کا بار اٹھاتے ہیں۔بس اسی لیے مردوں کو ان پر فضیلت ہے کہ زندگی کے سفر میں یہ دو نفری کارواں جب چلے تو ان کا ایک امیر( کمانڈر ) بھی ہو ، تا  کہ سفر صحیح سمت میں جاری رہے ۔
فرمان الٰہی ہے : الرجال قوامون عل النساء بما فضل اللہ بعضھم علیٰ بعض و مما انفو من اموالھم(القرآن ،النساء۔۳۴)
ترجمہ : ’’مرد عورتوں کے محافظ اور نگراں ہیں کیونکہ اللہ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں ،،اسلام نے ترکہ میں عورتوں کو سب سے پہلے حصہ دار قرا ر دیا ۔‘‘
للرجال نصیب مما ترک الوالدین والاقرین وللنساءنصیب مما ترک الوالدین والاقربون مما قل او کثر نصیبا مفروضا(القرآن ،النساء۔۷)
ترجمہ :’’ ماں باپ اور رشتہ دار کے ترکہ میں مردوں کا حصہ ہے اسی طرح ماں باپ اور رشتہ دارو ں کہ ترکہ میں عورتوں کا بھی حصہ ہے ‘‘ البتہ مردوں کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں ان پر بیوی بچوں اور دیگر رشتہ داروں کہ اخراجات کی ذمہ داریاں رکھی گئی ہیں جبکہ عورتوں پر شوہر     اور بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری نہیں بلکہ خود اپنا نفقہ بھی شوہر سے انہیں وصول کرنا ہے  رب العزت نے اسی حکمت کے پیش نظر عورتوں کا مردوں کے مقابل نصف حصہ مقرر فرمایا  ہے یہ حق تلفی نہیں بلکہ عورتوں کی خلقی حیثیت  کے لحاظ سے دوسروں کے اخراجات کی ذمہ داریوں سے سبکدوش فرما کر اس کے حق کی حفاظت ہے ۔پھر بیوی اور بچوں کے اخراجات وضع کرکے مردوں کو عورتوں کے برابر شاید جمع رہ پاتا ہو ۔
اس لئے فرمان الٰہی ہے:’’یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الا نثیین (القرآن النساء۔۱۰) ترجمہ : ’’اللہ تمہیں اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے ‘‘ عورتوں کے ان کے حقوق کے ساتھ اللہ رب العزت نے ازدواجی زندگی میں بہار لانے  اور گھر کو جنت کا نمونہ  بنانے کے لئے یہ بھی حکم دیا کہ اپنی بیویوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارو اگر ان میں کوئی خامی ہو تو صرف اس کی وجہ سے طلاق نہ دےدو ہو سکتا ہے کہ دوسری بہت ساری ان کی خوبیا ں زندگی کے پر خطر  راہوں میں تمہارے لئے سہارے کا کام دیتی  رہیں ۔
فرمان الٰہی ہے  : وعاشروھن بالمعروف فان کرھتم ھن فعسی ٰ ان تکرھو ا شئاً و یجعل اللہ فیہ خیر ا کثیرا(القرآن،النساء۔۱۹)ترجمہ :’’اپنی بیویوں کےساتھ  عمدگی کے ساتھ زندگی بسرکرو پھر اگر تمہیں وہ نا پسند ہوں تو صبر کرو ۔ہو سکتا ہے کہ تمہیں ان کی کوئی چیز نا پسند ہو مگر ان میں اللہ نے تمہارے لئے بہت ساری بھلائیاں رکھ دی ہوں‘‘۔فرمان رسول ہے :لایفرک مومن مومنۃ ان کرہ منھا خلقا رضی منھا اخر رواہ مسلم۔ (مشکوۃ المصابیح ، ج:۲، ص: ۲۸۰ ، باب: عشرۃالنساء، وما لکل واحد من الحقوق)
ترجمہ: ’’کوئی مومن کسی مومنہ عورت کو نا پسند نہ کرے اگر کوئی اس کی عادت بری لگے تو  دوسری اچھی عادت اس میں ہوتی ہے ۔‘‘
فرمان رسول ہے : حسن معاشرت کی تعلیم دیتے ہوئے محسن انسانیت ﷺنے اچھا انسان اسے قرار دیا جو عورتوں کے لیے  اچھا ہو ملاحظہ ہو : ’’خیرکم خیرکم لاھلہ  ‘‘ (مشکوۃ ، کتاب النکاح ،باب: عشرۃالنساء، وما لکل واحد من الحقوق/ سنن ابن ماجہ باب حسن معارۃ النساء)  ’’تم میں وہی لوگ بہتر ہیں  جو اپنے اہل و عیال کے لیے ساتھ بہتر ہیں ۔‘‘ ’’خیارکم خیارکم نسائھم‘‘ (ترمذی ،ج:۱،ص:۱۳۸، ابواب الرضا، باب ماجاءفی حق المرأۃ علی زوجھا) ’’تم میں کہ اچھے وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے لئے اچھے ہیں۔‘‘ ’’اتقو اللہ فی النساء‘‘ (ابو داؤد / مشکوۃ المصابیح ، باب :قصہ حجۃ الوداع) ’’عورتوں کے بارے میں خدا ڈرتے رہو۔ ‘‘
ویٹو حقوق انسانی کی پامالی کا چور دروازہ :حقوق انسانی کے تحفظ اور ان کی پاسداری میں جن قرآنی احکام کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے جن حقوق کے لئے انسانوں کی عظیم تباہی کےبعد اقوام عالم نے قرار دادیں پاس کیں یہ حقوق اسلام نے ان سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل انسانوں کو عطا کر دیا تھا اور امن انسانی کی ایک مثالی تاریخ پیش کر دی ہے ۔صرف قرار داد یں پاس کر کےسیاسی بساط پر کمزوروں کے حقوق کی پامالی کا تماشہ نہیں دیکھا ہے ۔
اقوام متحدہ نے  ایک جانب حقوق انسانی کا اعلانیہ جاری کیا دوسری جانب سلامتی کو نسل میں مستقل ارکان (امریکہ ،برطانیہ ،روس ،فرانس ،چین ،)کو ویٹو کا مہلک ہتھیار دیکر حقوق انسانی کی دھجیاں اڑانے کا  جواز بھی  پید ا کر دیا ہے ۔جمہوریت کے نام پر دنیا میں دہشت گردی کرنے والے ان ممالک نے سلامتی کونسل میں آخر کس قسم کی جمہوریت کی بنیاد ڈالی ہے جس میں پوری دنیا کے نمائندوں کی رائیں صرف ایک ویٹو سے کا لعدم قرار پاتی ہیں اور حقوق انسانی کی پامالی کا اسرائیل جیسے دہشت گردوں کو سند جواز مل جاتا ہے۔
خردکا نا م جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کریشمہ ساز کرے

0 تبصرے