علما کی سیاست سے دوری اور امت کے مشکلات
از: محمدابوہریرہ رضوی مصباحی ،پھول سراے، رام گڑھ. (رکن مجلس علماے جھارکھنڈ)
رابطہ نمبر :7007591756
ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد ہی مسلمانوں کی کوئی حکمت علمی نہ بن سکی، تقسیم ہند کے نتیجے میں مسلمانوں کے ایک طبقے نے چوں کہ اسلام کے نام پر ایک آزاد مملکت (پاکستان) حاصل کرلی تھی، اس لیے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی ملکی سیاست میں بڑی کم حصہ داری اور عموماً غیر مسلموں کے ہاتھ میں رہی، اور اقتدار میں دور رہنے کی وجہ سے مسلمانوں کا سیاسی شعور کم ہوتا گیا. تو جس طرح ہر سطح پر مسلمان بکھرتے رہے اس سطح پر بھی بکھرتے نظر آئے. مسلمانانِ ہند کی کوئی سیاسی جماعت وجود میں نہ آئی، نہ کوئی سیاسی پلیٹ فارم بن سکاکہ مسلمان اپنا وجود ثابت کر سکے.
ایک زمانہ تھا جب علماے کرام ملکی سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھتے تھے.
موجودہ دور میں سیاست حاضرہ سے اپنا دامن بچائے رکھنا اور بالکل اپنے آپ کو اس سے الگ رکھنا مسلمانوں کے حق میں مفید نہیں، مقام غور ہے کہ بہت سارے غیر اہم مقامات میں مجبوراً ہم کو غیر مسلم سیاست دانوں کا سہارا لینا پڑتا ہے. یہ سیاست سے دور رہنے کا ہی نتیجہ ہے کہ علما کے بارے میں عوام یہ کہتے نظر آتی ہے کہ مولوی حضرات کو سیاست سے کیا تعلق؟ بھلا یہ سیاست کیا جانیں؟ ان کی جگہ توصرف مسجد اور مدرسہ کی چہار دیواری ہے، اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ علما نے اپنے کو مکمل سیاست سے دور رکھا ہے، حالاں کہ علما سے بہتر سیاست کون کرسکتا ہے.
یقیناً آج کی سیاست گندی ہوگئ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اچھے لوگوں نے سیاست سے ہاتھ کھینچ لیا ہے. آج برائی دھیرے دھیرے اچھائی پر غالب ہونے لگی. ہم انصاف کا رونا روتے ہیں، ظلم اور حق تلفی کا راگ الاپتے ہیں، لیکن جب اسے سدھارنے کا موقع ملتا ہے تو ہم اپنے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں. ہم اس بات میں دل چسپی کیوں نہیں لیتے کہ آخر ہمارے سیاسی اور سماجی معاملات کو طے کرنے والے لوگ کون ہوں گے، اقتدار کی کرسی پر کسے بٹھایا جائے جو سماج کو ایک نظریے سے دیکھے. اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کسے بھیجا جائے، جو پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ ہمارے مسائل کو رکھے اور اس پر مثبت بحث کرکے مشکلات کا حل نکالے.
علما کو جان بوجھ کر سیاست سے دور کیا گیا ہے تاکہ من مانی اور بدعنوانی کے راستے کھولے جاسکیں. علما سے یہ کہا گیا کہ آپ حضرات کے لیے یہ مناسب نہیں، آپ دینی علوم کے وارث ہیں اور گلی گلی کھومتے آپ کو زیب نہیں دیتا، آپ تو آرام فرمائیں، ہم سب آپ کے لیے اسٹیج سجاتے ہیں، پھر یہ کہ اس میں کتنا جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور آپ مذہبی آدمی ہیں یہ آپ کے لیے مناسب نہیں،ہم خود آپ کے پاس آکر معاملات میں رائے لےلیں گے. اس طرح کی باتوں سے انھیں ایک اہم ذمہ داری سے سبکدوش کردیا گیا اور علما کی عدم شمولیت نے سیاست کا ماحول سخت پرا گندہ کرڈالا.
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ "اسلام میں سیاست دین سے الگ نہیں ہے نہ صرف سیاسی شعبہء حیات بلکہ سماجی اور معاشی شعبہ ہائے حیات بھی مذہب ہی کے تحت ہیں.
انسانی شعبہ ہائے حیات میں سیاسی شعبہء حیات سب سے زیادہ طاقت ور، مؤثر اور اہم تسلیم کیا گیا ہے. (حیات حافظ ملت.ص: 633)
لیکن آج سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھا جارہا ہے. سیاست کو لوگ اسلام سے الگ تصور کررہے ہیں. حالاں کہ یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ خود ہمارے آقا صل اللہ علیہ وسلم نے بھی سیاست و تدبر سے کام لیا ہے(ضرورت ہے کہ حضور کی سیاسی بصیرت کو پڑھیں). خلفائے راشدین و علماے امت نے بھی سیاست میں حصہ لیا ہے.
ہندوستان میں آزادئ ہند کے بعد سے اس میدان میں ہمارے علما نے دوری اختیار کی اور اتنا دور ہوئے کہ ہمارے اس عمل سے عوام یہ سمجھنے لگی کہ سیاست ایک بری چیز ہے.
جس کا اثر یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ سیاست میں جو بھی بچی کھچی ساکھ تھی وہ بھی ختم ہوگئی. اب دوسروں کے رحم و کرم پہ جی رہے ہیں، سرکار کی طرف سے ملنے والی رعایتوں سے ہم محروم ہو گئے. ہماری تعلیم گاہوں کو جو مراعات ملنی چاہیے اور تحریک و تنظیم کے لیے جو فنڈ ہوتے ہیں ان سب کو لینے سے عاجز رہے. سیاست میں ہماری جماعت کے افراد نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ میں ہمارے خلاف قانون آسانی سے پاس ہورہے ہیں. ہمیں دستور نے جو رعایت دی ہے اس سے بھی ہمیں دن بہ دن محروم کیا جارہا ہے، ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی ناپاک کوشش ہو رہی ہے. ہماری عصری درس گاہوں خصوصیت کے ساتھ "علی گڑھ مسلم یونیورسٹی" اور "جامعہ ملیہ اسلامیہ" کے خلاف بھی آوازیں بلند ہورہی ہیں. ان میں ہندو ذہنیت کے لوگوں کو مسلط کیا جارہا ہے، ہمارے بچوں کو پریشان کیا جارہا ہے. "نجیب کو زمین کھاگئ یا آسمان" اس کی بھی کوئی چھان بین صحیح طور پر نہیں ہوسکی،جب کہ مجرمین کھلم کھلا گھوم رہے ہیں اور یہ سب کو پتہ ہے کہ نجیب کو غائب کرنے والے وشوہندو پریشد کے کار کنان تھے جنھیں حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے. آپ طلاق ثلاثہ ہی کو لے لیں اس معاملے میں قرآن و حدیث کے خلاف مودی حکومت نے قانون پاس کیا اور مسلم دشمنی کا ثبوت پیش کیا. یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی مذموم سعی جاری ہے. این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کے ذریعے مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے.
دہشت گردی کے نام پر سیکڑوں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوئیں، کتنے بے گناہ جیلوں کی سلاخوں میں اپنی زندگیاں کاٹ رہے ہیں. آخر انھیں کون انصاف دلائے گا؟ ڈاکٹر کفیل جیسے لوگوں کی رہائی کے لیے آگے کون آئےگا؟
آج اگر ہم سیاست میں کمزور ہیں تو وہ ہمارے علما و اکابرین کی سیاست سے دوری کا نتیجہ ہے.
سیاست کوئی بری چیز نہیں ہے، ہمیں اسلامی حدود میں رہ کر سیاست کرنی چاہیے.
ماضی قریب کے علما نے بھی اس سلسلے میں تگ و دو کی ہے اور اس کے اچھےاثرات چھوڑے ہیں. حضرت علامہ برہان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ نے سیاست میں حصہ لیا اور ایم پی بنے، حضرت علامہ ریحان رضا بریلوی علیہ الرحمہ بھی ایم پی تھے.حضرت علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ نے اپنے بل بوتے کانگریس پارٹی سے علامہ سید مظفر حسین کچھوچھوی و علامہ اسرارالحق(سنی) علیہم الرحمہ(یوپی) کو نہ صرف ٹکٹ دلوایا بلکہ انھیں الیکشن میں کامیاب کر کے ایوان بالا تک پہنچایا. علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے، انھوں نے ہر جہت سے کام کیا، ان کی خوبیوں کو دیکھتے ہوئے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا "کہ اگر علامہ ارشد جیسے تین شاگرد اور ہوتے تو ہندوستان پر ہماری حکومت ہوتی" (جام نور کا رئيس القلم نمبر. ص: 213)
عصر حاضر میں جناب اسدالدین اویسی، مولانا عبیداللہ خان اعظمی(سابق ممبر آف پارلیمنٹ) اور مولانا غلام رسول بلیاوی (سابق ممبر آف پارلیمنٹ..موجودہ ایم ایل سی بہار) سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی فرما رہے ہیں.
ضرورت اس بات کی ہے کہ اچھے خیالات، اچھی سوچ و فکر اور تدبر کے حامل افراد کو سیاست کے میدان میں لایا جائے اور صحیح طریقے سے ان کی حوصلہ افزائی و رہنمائی کی جائے جس سے وہ آگے بڑھ کر ہم سب کے کام آئے اور سیاست میں بھی ہماری کچھ گرفت بنے.
متحد ہوتو بدل ڈالو زمانے کا نظام
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بھکرے ہوئے تارو سے کیا کام بنے
بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
0 تبصرے
شکریہ ہم تک پہنچ نے کے لیے