تکبروگھمنڈ انسان کی انتہائی بری خصلت متکبّراورمغرورشخص اللّٰہ تعالیٰ کوسخت ناپسند ہے!
از:محمّدشمیم احمدنوری مصباحی
خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)
آج ہمارے معاشرے کا یہ بہت بڑاالمیہ ہے کہ جس شخص کو بھی کوئی بڑی نعمت حاصل ہوجاتی ہے مثلاً کسی کےپاس کچھ مال ودولت یارتبہ واختیار آجاتاہے تو وہ عموماً تکبّروگھمنڈ میں مبتلا ہوجاتاہے،تکبّروگھمنڈ کی وجہ سے اس کے دماغ میں فتور آجاتاہے اور وہ اپنے آپ کو نہ جانے کیاسمجھنے لگتاہے،حالانکہ وہ اس بات کوبھول جاتاہے کہ درحقیقت اللّٰہ وحدہ لاشریک ہی انسان کو ساری نعمتیں عطافرماتاہے،وہ جب اور جس کوچاہے اپنی نعمتوں سے نواز دے،اور جب چاہےاپنی عطاکردہ نعمتوں سے محروم کردے-قرآن وسنّت اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ اس حقیقت کوواضح کرتاہے کہ جب بھی کسی شخص یاقوم نے تکبّرکیا تواس کوبالآخر ذلت ورسوائی کاسامناضرور کرناپڑا،ابلیس کی ذلت ورسوائی کاسبب بھی یہی تکبّرتھا-
یقیناًتکبّر وغرور انسان کی انتہائی بری خصلت ہے،تکبّرانسان کی فطری قوّتوں کادشمن ہے،اس سے انسان کی ترقی رک جاتی ہے،ذہن کام کرناچھوڑ دیتاہے،اوراچھاخاصاانسان خوشامد پسند بن جاتاہے،دوسروں کوذلیل سمجھنا اوران کی بےعزّتی کرنے میں اس کومزہ آنے لگتاہے ،اور دھیرے دھیرے یہ اس کی عادت بن جاتی ہے،اوراس قبیح عادت کی وجہ سے لوگ ایسے شخص سے نفرت کرنے لگتے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس کے سامنے کچھ نہیں کہتا مگر لوگوں کے دلوں میں اُس کے خلاف لاواپکنے لگتاہے جوموقع ملتے ہی پھٹ پڑتاہے، اسی لئے اسلام نے تکبّر کرنے والوں کو جابجا سخت تنبیہ کی ہے،قرآن واحادیث میں متکبّر وگھمنڈی شخص کے لئے سخت وعیدیں آئی ہیں،قرآن میں متکبّر اورمغرور شخص کومتنبّہ کرتے ہوئے اس طرح مخاطب کیاگیاہے-مفہوم:"بیشک اللّٰہ تعالیٰ تکبّر کرنے والوں[خودپسنداور فخرجتانے والوں]کو پسند نہیں کرتا،اس لئے لوگوں سے منہ پھیرکر [گردن ٹھیڑھی کرکے]بات نہ کر،نہ زمین پر اکڑ کر چل"(سورۂ لقمان،آیت:۱۸)
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،مفہوم:"جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی کبر (گھمنڈ)ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں ہوگا-اس پر ایک شخص نے پوچھا کہ آدمی پسندکرتاہے کہ اس کالباس بھی اچھاہو،جوتے بھی عمدہ ہوں،کیایہ تکبرہے؟تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ خود صاحب جمال ہے،اسے جمال ونفاست پسندہے[یہ کبر نہیں ہے] کبرتویہ ہے کہ اتراہٹ کے مارے حق کاہی انکارکردے اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے لگے"(مسلم)
[اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری احادیث ہیں جن میں تکبّر وگھمنڈ کی مذمت اور متکبر کےلئے سخت ترین وعیدوں کاذکر ہے-]
یہ انسانی فطرت کا نہایت تاریک پہلو ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر خود پسند واقع ہوا ہے ، جب اس کے سامنے اس کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے تو وہ فخر و غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کو پھر انہی باتوں میں مزہ آنے لگتا ہے ،کچھ لوگ بلکہ اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی تعریف خود کرنے لگتے ہیں یعنی "اپنے منہ میاں مٹھو" بننے لگتے ہیں، آہستہ آہستہ ان کواس کی عادت پڑ جاتی ہے، اور جب کبھی ان کو اس کے برخلاف حالات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ہے تو وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور غیر انسانی حرکتیں کرنے لگتے ہیں- اس سے معلوم ہوا کہ غرور و تکبر انسان کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں اور ایک اچھا بھلا انسان مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے-
حسد اور تکبر یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں یعنی جو شخص متکبر ہوتا ہے وہ حاسد بھی ہوتا ہے، کیونکہ متکبر شخص کے دماغ میں یہ بات سماجاتی ہے کہ "تو بہت طاقتور شخص ہیےاور اپنے حلقہ میں سب سے زیادہ دولت مند و قابل، سب سے زیادہ باحثیت اور سب سے زیادہ حسین ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ میرے چاروں طرف کیوں منٍڈلاتے؟ اور میری جھڑکیاں کیوں برداشت کرتے؟" اسی سوچ کی وجہ سے وہ یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ اس کے متعلقین عزیز و اقارب اور دوست و احباب اس سے کسی بھی معاملہ میں بڑھ جائیں،اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ متکبّر وگھمنڈی شخص حسد اور جلن میں مبتلا ہو جاتا ہے اور خواہ مخواہ اپنی انرجی ضائع کرنے لگتاہے-
تکبر اور حسد میں مبتلا ہونے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں حسن و جمال، دولت وثروت،عہدہ یا پھر قابلیت، اگر ایک انسان کے پاس یہ سب چیزیں بیک وقت آجائیں تو اگر اس کے اوپر خدا کا فضل و احسان نہ ہو تو اس کے بگڑنے کے پورے مواقع رہتے ہیں ،کیونکہ یہ سب چیزیں دنیا کی زینت ہیں- فخر و غرور اور انسان کی انا کے لیے ان چیزوں سے زیادہ کوئی اور چیز ہلاکت کا باعث نہیں ہے- اس لیے ضروری ہے کہ اگر خدا انسان کو یہ سب چیزیں اپنے فضل سے عنایت فرمادے تو بجائے غرور، تکبر اور گھمنڈ میں مبتلا ہونے کے اللہ رب العزت کا شکر ادا کرے اور اِن ساری نعمتوں کو خدا کا ہی عطیہ سمجھے-
دراصل غرور اور تکبر کے مسئلہ کو بھی دین کے دائرہ میں ہی سمجھنے کی ضرورت ہے- اگر آدمی دین کی اہمیت سمجھتا ہے اور اسلام کے ضابطۂ حیات پراُس کا یقین ہے،آخرت کاخوف اورڈر اس کے اندر موجود ہے، اور خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس اس کو ہر وقت بےچین رکھتا ہے تو پھر اس کے اندر غرور، تکبر اور گھمنڈ پیدا ہوہی نہیں سکتا،خواہ ساری دنیا اس کے قدموں کے نیچے آ جائے اس کے اندر تبدیلی پیدا نہیں ہو گی، یعنی دولت وثروت، حسن وجمال،عہدہ وقابلیت سب کو اللہ کی طرف سے عطیہ سمجھتے ہوئے ان کا بھرپور استعمال کرے گا، لیکن ان چیزوں کی وجہ سے بلاوجہ کسی کے اوپر ظلم و زیادتی نہیں کرے گا، نہ بلاوجہ کسی پراپنارعب جمائے گا اور نہ کسی کو حقیر سمجھے گا-
اب دوسرا معاملہ بے دین شخص کا ہے، ایسے شخص کے بارے میں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا، جب اس کے اندر دینداری ہی نہیں ہے تو پھر ان دنیاوی بلاؤں سے اس کا محفوظ رہنا بہت مشکل ہے، کیونکہ غرور و تکبر، فخر و مباہات انسانی کمزوریوں میں سب سے بڑی کمزوری ہے- اگر بے دین شخص کے ہاتھ میں دنیاوی زینت کے سامان آجائیں تو وہ ان کا استعمال بے جا کرنے لگتا ہے- شیطان اس کو سہارا دیتا ہے اور وہ اس دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے-
تکبر اور غرور کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں مبتلا شخص حق اور ناحق کی پہچان کھو بیٹھتا ہے، سچائی اگر چہ اس کے سامنے واضح ہو کر آجاتی ہے،حق اس پرظاہرہوچکا ہوتا ہے لیکن وہ جھوٹی انا،غرور اور تکبر کی وجہ سے سچائی کا سامنا کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے،اس بات کی سب سے بڑی دلیل کفار مکہ ہیں- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے دین حق پیش کیا تو آہستہ آہستہ اسلام کی سچائی ان پر ظاہر ہو گئ، کیوں کہ ایک طرف اسلام کو وہ بے داغ ہستی پیش کر رہی تھی جس کی پوری زندگی بے مثال تھی اور ان لوگوں نے اپنی نگاہوں سےسارے عرب میں اس جیسا مثالی نوجوان نہیں دیکھا تھا،کچھ تو اسلام کی تعلیمات، اور دل کو اپیل کرنے والی باتیں، یہ دونوں چیزیں اسلام کی حقانیت کے لئے کافی تھیں اور روسائے مکہ پر اسلام کی سچائی ظاہر ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ اسلام نہیں لائے اور مستقل اسلام کے خلاف عمل کرتے رہے،اس کی وجہ صرف ان کا غرور و تکبر اور خاندانی حسب و نسب اور آبائی کر وفر تھا جو ان کو تباہ و برباد کر گیا، اس سے زیادہ ان کی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ خدا کا آخری اورمحبوب نبی ان کے سامنے بذات خود اسلام کو پیش کرے اوروہ اس کو قبول کرنے کے بجائے ٹھکرا دیں بلکہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، اور ہمیشہ کے لیے عذاب الہی میں گرفتار ہو گئے-
اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم تکبر وغرور کو بالکل ہی اپنے پاس بھی نہ آنے دیں،اور جہاں تک ہوسکے عاجزی وانکساری کے ساتھ لوگوں سے پیش آئیں-
اللّٰہ وحدہ لاشریک ہم سبھی مسلمانوں کو تکبروغرور اور گھمنڈ نیز خودنمائی وریاکاری اور حسد وکینہ جیسی سبھی موذی بیماریوں وگناہوں سے بچنے کی توفیق سعید عنایت فرمائے-آمین!
0 تبصرے
شکریہ ہم تک پہنچ نے کے لیے