✍️محمد حبیب اللہ بیگ
 جامعہ اشرفیہ مبارک پور
 20 ذی القعدہ 1441 ھ بروز ہفتہ

چار حساب بہت مشہور ہیں۔
 جمع (جوڑ)، تفریق (گھٹاو)، ضرب، تقسیم۔
کہتے ہیں کہ اصل اور بنیادی حساب یہی چار ہیں، اور پورا علم ریاضی انہی چار حسابوں پر گردش کرتا ہے، قرآن کریم نے ان چاروں حسابوں کو بیان کیا، اور بڑے حسین پیرائے میں بیان کیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس باب میں قرآن کریم ہماری کیسی رہنمائی فرماتا ہے۔
     
         ++++++ جمع یعنی جوڑ ++++++

1- فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو توریت شریف عطا کی گئی، اس کتاب حکمت کو عطا کرنے کے لیے پروردگار عالم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر طلب فرمایا، اور وہاں چالیس روزے مکمل ہونے کے بعد آپ کو توریت مقدس عطا کی، فرمایا: 

 وَوَ ٰ⁠عَدۡنَا مُوسَىٰ ثَلَـٰثِینَ لَیۡلَةࣰ وَأَتۡمَمۡنَـٰهَا بِعَشۡرࣲ فَتَمَّ مِیقَـٰتُ رَبِّهِۦۤ أَرۡبَعِینَ لَیۡلَة        الأعراف ١٤٢

   یعنی ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا، پھر اس میں دس کا اصافہ کیا، تو اس کے رب کی مقررہ مدت چالیس پوری ہوگئی۔

اس آیت مبارکہ میں جمع یعنی جوڑ کا حساب ہے، قرآن کریم نے پہلے تیس کا ذکر کیا، پھر اس میں دس کے اضافے کا ذکر کیا، پھر سب کو جوڑنے کے بعد چالیس کے عدد کو نتیجے کے طور پیش کیا، اسی کو ہم ہندسوں میں اس طرح لکھتے ہیں:
30+10=40
 اس کو عربی میں کہتے ہیں:
 ثلاثون مع عشرة ينتج أربعين۔
جسے قرآن کریم نے اپنے اسلوب میں بیان فرمایا۔

2- اللہ رب العزت نے حج تمتع کرنے والے حجاج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: 

 *فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلۡعُمۡرَةِ إِلَى ٱلۡحَجِّ فَمَا ٱسۡتَیۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡیِۚ فَمَن لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلَـٰثَةِ أَیَّامࣲ فِی ٱلۡحَجِّ وَسَبۡعَةٍ إِذَا رَجَعۡتُمۡۗ تِلۡكَ عَشَرَةࣱ كَامِلَةࣱ*.               [البقرة ١٩٦]   

یعنی جو حج تمتع کرے وہ قربانی پیش کرے، اور جو قربانی پر قدرت نہیں رکھتا وہ ایام حج میں تین روزے رکھے، اور سات وہاں سے لوٹنے کے بعد، یہ کل دس روزے ہوئے۔

اس آیت میں جوڑ کا حساب ہے، بایں طور کہ پہلے تین کا ذکر کیا، پھر سات کا ذکر کیا، پھر دونوں کا مجموعہ دس ذکر کیا، جسے ہم ہندسوں میں اس طرح لکھتے ہیں۔
3+7=10
 اسی کو عربی میں اس طرح تعبیر کرتے ہیں:
ثلاثة مع سبعة تنتج عشرة 
جسے قرآن کریم نے اپنے اسلوب میں بیان فرمایا۔

         *-------- تفریق یعنی گھٹاؤ -------* 

 1 - اللہ رب العزت نے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: 

 *وَلَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوۡمِهِۦ فَلَبِثَ فِیهِمۡ أَلۡفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمۡسِینَ عَامࣰا.*               [العنكبوت ١٤].

یعنی ہم نے نوح کو اس کی قوم میں بھیجا، تو نوح نے اپنی قوم میں پچاس سال کم ایک ہزار سال گزارے، یعنی ساڑھے نو سو سال گزارے۔

اس آیت میں تفریق یعنی گھٹاؤ کا حساب ہے، بایں طور کہ پہلے ہزار کا عدد ذکر کیا، پھر اس سے پچاس وضع کیا، جس کے بعد نو سو پچاس باقی رہ جاتے ہیں۔ اگر اس کو ہم ہندسوں میں لکھیں تو اس طور پر لکھیں گے۔
1000-50=950

اس آیت کے مطابق طوفان سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ تبلیغ نو سو پچاس سال کو محیط ہے، تفسیر نسفی میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر شریف ایک ہزار پچاس سال تھی، چالیس سال کی عمر میں بعثت ہوئی، ساڑھے نو سال کے زمانہ تبلیغ کے بعد طوفان آیا، اس کے بعد مزید ساٹھ سال تک دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔ اس طرح آپ نے کل ایک ہزار پچاس سال کی عمر پائی۔

           *×××××××× ضرب ××××××××* 

1- قرآن کریم نے انفاق فی سبیل اللہ کے اجر وثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: 

 *مثَلُ ٱلَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمۡوَ ٰ⁠لَهُمۡ فِی سَبِیلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِی كُلِّ سُنۢبُلَةࣲ مِّا۟ئَةُ حَبَّةࣲۗ وَٱللَّهُ یُضَـٰعِفُ لِمَن یَشَاۤءُۚ وَٱللَّهُ وَ ٰ⁠سِعٌ عَلِیمٌ* 
[سورة البقرة 261]

 یعنی جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس کاشت کار کی سی ہے جو زمین میں ایک دانہ دبا دیتا ہے، جو سات بالیاں لے کر نمودار ہوتا ہے، جس کی ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے مزید عطا فرماتا ہے، اللہ وسعت وعلم والا ہے۔

اس آیت میں ضرب کا حساب ہے، بایں طور کہ پہلے سات کا ذکر کیا، پھر اسے سو سے ضرب دیا گیا، جس کا نتیجہ سات سو بنتا ہے، اگر ہم اس کو ہندسوں۔ میں لکھنا چاہیں تو یوں لکھیں گے۔
7×100=700

            *÷÷÷÷÷÷÷÷ تقسیم ÷÷÷÷÷÷÷÷÷*

اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کی سیرابی کے سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی، اور ان کے لیے بارہ چشمے جاری فرمادیے، فرمایا:

*وَقَطَّعۡنَـٰهُمُ ٱثۡنَتَیۡ عَشۡرَةَ أَسۡبَاطًا أُمَمࣰاۚ وَأَوۡحَیۡنَاۤ إِلَىٰ مُوسَىٰۤ إِذِ ٱسۡتَسۡقَىٰهُ قَوۡمُهُۥۤ أَنِ ٱضۡرِب بِّعَصَاكَ ٱلۡحَجَرَۖ فَٱنۢبَجَسَتۡ مِنۡهُ ٱثۡنَتَا عَشۡرَةَ عَیۡنࣰاۖ قَدۡ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسࣲ مَّشۡرَبَهُمۡ۔* 

ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کرکے ان کے بارہ گروہ بنادیے، اور جب موسیٰ سے اس کی قوم نے پانی کا تقاضا کیا تو ہم نے اس کی جانب وحی بھیجی کہ اپنے عصا سے پتھر پر مارو، تو اس سے بارہ چشمے جاری ہوگئے، سب نے اپنا چشمہ پہچان لیا۔

اس آیت مبارکہ میں تقسیم کا حساب ہے، بایں طور کہ پہلے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا ذکر ہے، پھر بارہ چشموں کا ذکر ہے، پھر ہر ایک کے حصے میں ایک چشمہ آنے کا ذکر ہے، اسی کا نام تقسیم ہے، جسے ہم ہندسوں میں اس طرح لکھتے ہیں: 
12÷12=1
 
 *========= اہم نکتہ ==========*

اخیر میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرکے اپنی گفتگو مکمل کرتا ہوں کہ 

1- قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی میقات کے بیان میں تیس اور دس کا مجموعہ چالیس کا ذکر کردیا، اسی طرح حج تمتع کے بیان میں سات اور تین کا مجموعہ دس کا ذکر کردیا، تاکہ بندوں کو اس بات کا بخوبی علم ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو محدود مدت اور متعین عمل کا ہی مکلف بناتا ہے، اور انھیں تکلیف مالا یطاق کی آزمائش میں مبتلا نہیں فرماتا۔

2- حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ بعثت کے بیان میں ہزار سال کا ذکر کیا، پھر پچاس کے استثنا کا ذکر کیا، لیکن بطور نتیجہ نو سو پچاس کا ذکر نہیں فرمایا، کیوں کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے نازل ہوئی، اور لفظ ہزار، یا کم وبیش ہزار کہنے میں جو تسلی ہے، وہ نو سو پچاس کہنے میں نہیں ہے، اسی لیے حاصل تفریق کے ذکر سے اعراض فرمایا۔

3- انفاق فی سبیل اللہ کے مسئلے میں ایک بالی سے سات بالی، اور ہر بالی سے سو بالی بننے کا ذکر کیا، لیکن بطور نتیجہ سات سو بالیوں کا ذکر نہیں فرمایا، تاکہ کوئی کوتاہ بیں اللہ کی لا محدود عطا کو سات سو بالیوں میں محصور نہ کردے، اسی لیے اس خیال خام کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:

 اللہ جسے چاہتا ہے مزید عطا فرماتا ہے، اللہ وسعت وعلم والا ہے۔

*وَٱللَّهُ یُضَـٰعِفُ لِمَن یَشَاۤءُۚ وَٱللَّهُ وَ ٰ⁠سِعٌ عَلِی*

4- حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی سیرابی کے باب میں بارہ قبائل، بارہ چشمے پھر ہر ایک کے حصے میں آنے ایک ایک چشمے کا صراحت کے ساتھ ذکر فرمایا، تاکہ بندوں کو اس بات کا بخوبی علم ہوجائے کہ اللہ سب سے بہتر تقسیم فرمانے والا ہے، اور جب وہ تقسیم کرتا ہے تو سب کو عطا فرماتا ہے، اور برابری کے ساتھ عطا فرماتا ہے، واللہ تعالیٰ اعلم۔

 انوار القرآن ٹرسٹ، مچھلی پٹنم، اے پی۔

0 تبصرے