17/ جون 20 20   کو حضرت مولانا عرفان فیضانی، امام فاروقیہ مسجد،کمہاری ـوـ رکن: تحریک علمائے ہند نے اپنے یوٹیوب چینل "فیضانی چینل" پر "میڈیا/ سوشل میڈیا پر ہونے والی گستاخیوں پر مسلمانوں کا ری ایکشن؟" کے عنوان سے ایک لائیو پروگرام رکھا،جس کے خطاب کو کافی سراہا گیا، ابھی فیس بک کے ذریعہ دیکھا کہ حضرت مولانا صادق رضا سالک مصباحی نے اسے تحریری شکل میں مرتب کیا ہے۔ مولانا مصباحی کے شکریہ اور قدرے تحریری رنگ کے ساتھ پورا خطاب پیش ہے، پڑھیں اور دعاؤں سے نوازیں۔خالدایوب مصباحی
  

خطاب :۔مفتی خالدایوب مصباحی
ترتیب وپیش کش :۔صادق رضاسالک

گزشتہ کچھ سالوں سے میڈیا کے ذریعہ اسلام، اسلامیات اوراسلامی شخصیات پر حملہ کرنے کا جو ناروا سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ رکنے کا نام نہیں لے رہاہے، ہمیں دشمنوں سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ ان کا جو کام ہے، وہ کررہےہیں۔ ہاں! ہمیں اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا  چاہیےاور ہم اپنی ذمہ داریاں ہم کس حد تک پوری کررہےہیں؟ اس کا ٹھیک سے تجزیہ ہونا چاہیے۔
 اس حوالے سے بہت سنجیدگی کےساتھ چند باتیں پیش کرنا چاہوں گا:
اس وقت پورا ملک عطاے رسول، خواجہ خواجگان، حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں کی گئی گستاخی اور دریدہ دہنی کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ بہت ساری جگہوں پر  FIR درج کروائی گئیں لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی، کیوں کہ ماضی میں ہمیں جس طرح کے تلخ تجربات ہوئے ہیں، اس کی روشنی میں اب بھی اس بات کی دور دور تک امید نظر نہیں آتی کہ یہ سلسلہ یہیں ختم ہوجائے گا۔اس لیے اس طرح کے نامساعد حالات کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔
تمہیدی طور پر سب سے پہلے یہ بات جان لینی چاہیے کہ اگر ہم چاہتےہیں کہ گستاخیاں نہ ہوں اور اسلام اور اسلامیات پر کیچڑ نہ اچھالا جائے توہمیں اپنی دیگر ضروریات اور من جملہ کاموں میں اسلام کا دفاع بھی  اپنی زندگی کا ایک ریگولر پارٹ بنانا ہوگا۔یہ ویسے ہی ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ ہونا چاہیے، جیسے کھانا، پینا، سونا وغیرہ  زندگی کا حصہ ہیں۔
اس موقع پر  یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیےکہ آج کی دنیا کا جواب جارحانہ انداز ہرگز نہیں ہوسکتا۔جدید دنیا کے مسائل کےحل کےلیے نہایت سنجیدہ، محتاط، علمی اورمنطقی انداز بیان مطلوب ہےاور یہ کام وہی کرسکتاہے،جو اسلام اور اسلامیات کے تعلق سے حددرجہ غیرت مند واقع ہوا ہو۔ 
ورنہ بہت سارےلوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہہ رہاہے، معاذ اللہ کون بد بخت خدائے تعالی کی شان والا میں گستاخیاں اوربےباکیاں کررہاہے اور کون اسلامی تعلیمات پر کیچڑ اچھال رہاہے۔ 
سچائی یہ ہے کہ یہودیوں کی من جملہ سازشوں میں  یہ ایک اہم ترین سازش تھی کہ اسلام پر آہستہ آہستہ اس طرح حملہ کیاجائے کہ اسلام اور اسلامیات کی گستاخیاں برداشت کرنا، مسلمانوں کی عادت کاحصہ بن جائے اور واقعہ یہی ہے کہ اب دھیرے دھیرے مسلمانوں نے عملاً اس طرح کی بد بختیوں کو نارمل زندگی کا ایک عام مسئلہ سمجھ لیا ہے۔ آئے دن گستاخیاں ہوتی  رہتی ہیں اور ہم اپنی دنیات میں مست رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایمان کی کمزوری  اور غیرتوں کے خوابیدہ ہوجانے کی علامت ہے۔اگر ہمیں ناموس اسلام پر ریگولر کام کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنی اس غیرتِ خوابیدہ کو بیدار کرنا ہوگا اور نہایت حکمت وتدبر اور غیرت مندی کے ساتھ اس نئے زمانے کے فتنے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ 
*سیاسی فہم:۔*
دانش ور کہتےہیں کہ انسان کو اپنی سوچ کے اعتبار سے Political ہونا چاہیے۔اگر اس مقولے کو سچ مان لیا جائے تو political view یہ کہتاہے کہ 15 /جون  2020 کو حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شان میں جو گستاخی ہوئی، وہ ہوئی نہیں بلکہ کروائی گئی تھی۔
 بات دراصل یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک کی توجہ چین سے چھڑی جنگ کی طرف تھی ،جس طرح چین مسلسل ہم پر اٹیک کرتاچلا جارہاہے،  پورا ملک جواب طلبی کررہاتھا کہ ہماری حکومت اس سلسلے میں کیا پیش رفت کررہی ہے؟ 
ٹھیک ایسے نازک موڑ پر یہ ایشو create کیا گیا اور اس طرح کے ایشوز سامنے لا کر بھولی عوام کو मुद्दों سے بھٹکانے کا کام ایک زمانے سے ہوتا چلاآرہاہے۔ 
چوں کہ ہم اسلامیان ہند اپنے مزاج کے اعتبار سے کافی جذباتی واقع ہوئے ہیں، اس لیے یاتو ہم ان جذباتی مذہبی ایشوزمیں پڑتے نہیں  اور پڑتے ہیں تو اس شدت کے ساتھ کہ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتےاور یہ بالکل غیر معتدل طریق کار ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بد تمیزیوں کے خلاف احتجاج ہونا چاہیے مگر احتجاج میں بھی اعتدال اور ساتھ ہی استقلال بھی ہونا چاہیے۔ہمارے اندر یہ پولیٹیکل wisdom ہونی چاہیے کہ کوئی بد باطن ایشوز create کرکے ہمیں بھٹکا نہ سکے اور ساتھ ہی ایشوز کی حساسیت کی مقدار ہی اس پر ہمارا Reaction ہونا چاہیے۔
 اس موقع کی سیاسی سمجھ کا تقاضا یہ ہے کہ سرکار غریب نواز کے گستاخ کے خلاف احتجاج بھی ہوتا رہے اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی جاری رہے: مودی جی بتائیے! چائینا کے خلاف آپ کیا کررہےہیں؟ حکومت جواب دے: ہمارے جو فوجی مارے جارہےہیں، ان کی جانوں کا کیا بدلہ لیا جارہاہے؟
کیا یہ حکومت کا دوہرا معیار نہیں کہ ایک پڑوسی ملک بے تحاشا فوجیوں کو گراتا چلا جائے تو کوئی Reaction نہیں، کوئی جوابی کارروائی نہیں، کوئی ہمت مردانہ نہیں۔ اور وہیں دوسرے پڑوسی ملک کی طرف سے ایک بیان بھی آجائے تو ہنگامے کھڑے کر دیے جاتےہیں۔ ہمارےاندر اس طرح کے ہر مناسب موقع پر  سوال کرنے کی ہمت اوربازپرسی کا جذبہ ہونا چاہیے۔
*طریق احتجاج:۔*
احتجاجوں کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ احتجاج کرنے میں ہمیشہ گاندھوی طریقہ اپنایا جانا چاہیے۔یعنی ہمارے احتجاجوں میں جو کوٹیشن ہوں، جو انداز ہو اور اس کی جو بنیادیں ہوں،  وہ گاندھوی مزاج پراستوار ہوں۔ اس طریق احتجاج کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بجائے خود سیکولرازم اور حب الوطنی دکھانے والامزاج ہے۔
کس کے دل کے اندر کتنی محبت ہے؟ یہ  بتانے اور جتانے کی چیز نہیں ۔ دنیا جانتی ہے، ایک مومن اپنے وطن سے اپنی جان کی طرح محبت کرتاہے لیکن یہ کوئی ثابت کرنے کی چیز نہیں۔ ماضی قریب میں ہماری جو عام روش ہو چلی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی وطن دوستی کا ثبوت دیتےرہتے ہیں،  یہ نادانی ہے، زیادہ صفائی دینے والا مشکوک ہوتا ہے۔ ہم جب ہندی ہیں تو ثبوت دینے کی کیا ضرورت ہے۔ کیوں نہ ہم ایسے طریقے اپنائیں کہ ہم ثبوت نہ دیں بلکہ ہمارے مخالفین کو ثبوت دینا پڑے کہ وہ بھی محب وطن ہیں اوریہ گاندھوی، یا امبیڈکروادی طریقے سے ہوسکتا ہے، جسے بالفاظ دیگر نیشنل ازم، یا سیکولرازم کا طریقہ بھی کہہ سکتےہیں۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ بہت سارے وہ لوگ جن کا وطن کی آزادی سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں رہا، آج وطن کے نام کےجھنڈے اٹھا کر جسے چاہتےہیں، حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ بانٹتے پھر رہےہیں، کیا ہم اتنے بے وقوف واقع ہوئے ہیں کہ سو/ پچاس روپیے کے جھنڈے نہ خرید سکیں؟یا انھیں کے جیسے ڈھونگی طریقے نہ اپنا سکیں؟ 
اگر ہمارا حریف جھوٹی وطن دوستی کے بہانےبے وقوف بنا  دیتا ہے اور ہم اپنے جائز مطالبات کے لیے بھی یہ طریقہ نہیں اپناپاتے تو اسے عقل مندی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔لہذا جب بھی احتجاج کریں، گاندھوی انداز میں کریں تاکہ شاطر دشمن آپ کے احتجاجوں کو Divert  کرنے میں ناکام رہیں۔
ورنہ ہم نے بارہا اپنے احتجاجوں میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ پہلے ایک یا چند مسلمان مظلوم ہوتے ہیں، پھر ان کے حق میں غیر سنجیدہ احتجاج کرے والوں کو ملزم بنایا جاتاہے اور آخر میں ان ملزمین کو مجرم بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال دیکھنا ہو تو دہلی فسادات کا جائزہ لے لیں۔اس روش میں بدنیتوں کی بدنیتی اپنی جگہ لیکن میرا ماننایہ ہے کہ کہیں نہ کہیں ہماری نادانی بھی شامل ہوتی ہے ۔بڑے کام کبھی جوشیلے، جذباتی اور بھڑکاؤ انداز میں نہیں ہوتے بلکہ کام جتنا بڑا ہوتا ہے، اس کے پیچھے اتنی ہی سنجیدگی، ہوش مندی اور تدبر کی کار فرمائی چاہیے۔ ایسے موقعوں پر محض جذبات اور جذباتی لوگوں کا کام نہیں۔ 
*احتجاجوں میں نظم ہونا چاہیے:۔*
ہمارے احتجاج  systematic style کے اور بہت منظم ہونے چاہیے۔تنظیم اور system کے لیے جن اصولوں کو follow کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں سب سے پہلی چیز سنجیدگی ہے۔
ایشو کتنا بھی بڑا اور serious کیوں نہ ہو، کتنی بھی بڑی گستاخی اوربدتمیزی ہوئی ہو، ہمارے جذبات کو چاہے جتنی  ٹھیس پہنچی ہو، یہ ہمارا ذاتی اور اندرونی مسئلہ ہے لیکن جب ہم مارکیٹ میں آئیں تو بہر صورت جذباتی انداز میں نہیں بلکہ مارکیٹ کے اصولوں کے مطابق آئیں۔ آئینی دائرے میں رہ کر احتجاج کریں۔ احتجاج کے کسی بھی مرحلے میں سنجیدگی کا دامن لمحہ بھر بھی چھونٹے نہ پائے۔ کیوں کہ مسائل جذبات یا ہمارے دل کی چوٹ کے اندازے کے مطابق نہیں، بہر صورت آئینی انداز میں حل ہونے ہیں اور آئینی بنیادوں کو جذبات سے ہلایا نہیں جا سکتا۔ البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وقتی جذبات سے ہم اپنا بڑانقصان کر بیٹھیں، جو بارہا ہوتا ہے۔ جبکہ سنجیدگی برقرار رکھنے کی صورت میں، اقلیت کا بھرم بھی برقرار رہتا ہے جو احتجاج سے زیادہ بھی ضروری  ہے۔ 
بارہا نوٹ کیا جاتا ہے کہ ہمارے نوجوان احتجاجوں میں اپنا آپا کھو بیٹھتے ہیں اور اس قدر اُتاؤلے اور جذباتی ہوجاتےہیں کہ گویا اسی ایک احتجاج میں وہ سب کچھ فتح کر لیں گے جبکہ انجام کار کے طور پر ہونا جانا کچھ نہیں ہوتا اور اس نادانی میں اپنا بھرم بھی کھو بیٹھتےہیں۔ بھرم بچائے رکھنے کے سلسلے میں قرآن کریم نے کتنی حسین رہ نمائی کی ہے:
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔ (سورہ انفال، 46)اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں جھگڑو نہیں کہ پھر بزدلی کرو گے اور تمہاری بندھی ہوئی ہوا جاتی رہے گی اور صبر کرو بےشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔
 نفسیاتی طور پر دشمن یا ظالم کے دل میں مظلوم کے تعلق  سے ہمیشہ یہ بھرم رہنا چاہیے کہ مظلوم بہت طاقت ور ہے لیکن ہنوزوہ اپنے پاور کا استعمال نہیں کر رہاہے، اگر اس نے اپنے گھوڑے کھول دیے تو شاید میرے لیے زمین تنگ ہوجائے، یہ بھرم برقرار رکھنا ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔یہی ہمارا رعب ہے اور یہی جمہوریت میں تحفظ کی ضمانت۔ اسی سے وقار باقی رہتا ہے اور اسی سے اصول پسندی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ 
اس وقت جب پورا ملک سرکار غریب نواز کی شان میں بدتمیزی کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے،نوجوانوں اور جذباتی لوگوں کا رویہ یہ بن چکا ہے کہ جس تنظیم نے بھی احتجاج نہیں کیا، یا جنھوں نے میمورنڈم نہیں پیش کیا، یا  ایف آئی آر نہیں کٹوائی، انھیں لگتا ہے گویا اس تنظیم کے افراد کو غریب نواز سے محبت نہیں۔یہ روش بد گمانی ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ غیر اسلامی ہے بلکہ غیر معقول بھی ہے۔ ایسے مطالبات اور ایسی امیدیں، سیاسی نا فہمی کی نشانی ہیں۔ 
سب کے کام کرنے اور سوچنے کااپنا جدا انداز ہوتاہے۔ہرایشو میں ہرانسان کود پڑے، ایسا کبھی نہیں ہونا چاہیے۔ چند چہرے بالخصوص نمایاں اوربڑے چہرے ہمیشہ پیچھے رہنے چاہیے۔ایسے موقعوں پر دانش ورانہ اقدام یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے مسائل کا حل کریں اور بڑے ان کی خاموش پشت پناہی تاکہ حکومت کو یہ بھرم رہےکہ ابھی چھوٹوں نے مورچہ سنبھال رکھا ہے، اگر بڑے میدان میں کود پڑے تو جانے کیا ہوگا۔اقلیتوں کے لیے یہ بھرم اور رعب بچائے رکھنا  ہرحال میں بہت ضروری ہے۔
*ایشوز کی حساسیت کو معیار بنائیں:۔*
 ہمیں ہوا کا رخ دیکھ کر اٹھ کھڑے ہونے کی بجائے، ایشوز کی اہمیت اور حساسیت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر حیدرآباد میں ایک لیڈی ڈاکٹر کا قتل ہوا، ملک بھر میں احتجاج ہوا، لیکن اس کے بعد کتنے ہی قتل ہوئے،مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
دہلی میں نربھیا کانڈ ہوا، درندوں کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ہوا لیکن اس کے بعد اس سے بڑے بڑے کیسیز (حادثات) سامنے آئے، بڑے بڑے ظلم ہوئے، کہیں احتجاج نہیں ہونا تھا تو نہ ہوا۔اسی طرح پلوامہ اٹیک کے موقع پر ہر مسجد کے باہر مذمتی ہورڈنگ اور ہر جمن میاں کے ہاتھوں میں بینر تھے لیکن کیا آج تک کوئی حکومت سے پوچھ سکا: اس پورے ڈرامے کا اصل مجرم کون ہے؟
بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اور ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی سمت طے کرنا، کبھی  دانش وروں کا  مزاج نہیں ہوتا، دانش ور ہوا کی رو میں نہیں بہتے بلکہ ایشوز کی اہمیت اور حساسیت کو ملحوظ رکھتے ہیں اور پھر اپنی دانش سے فیصلے کرتے ہیں۔ 
یہ بھی ہوا کے رخ کی ہی پیروی ہے کہ فلاں تنظیم نے یہ کام کردیا تو ہمیں بھی کرنا چاہیے، یا فلاں پڑوسی شہر میں یہ کام ہوگیا تو ہمارے یہاں بھی نقالی ہونی چاہیے، یا فلاں مسجد کی طرف سےیہ اعلان ہوگیا تو ہماری مسجد کی طرف سے کیوں نہ ہو۔ ایک جگہ ایف آئی آر ہوئی تو آئندہ ہر جگہ ایف آئی آر، کسی نے جلوس سے پہل کر دی تو ہر جگہ جلوس اور کہیں میمورنڈم سے آغاز ہو گیا تو اب ہر جگہ صرف میمورنڈم ہی پیش کیے جائیں گے۔ یہ  نقالی والی عادت ہمیں چھوڑنی ہوگی  اور اس کی بجائےایشوز کی حساسیت کو سمجھنا ہوگا، جوایشو جتنا sensitive ہے، اس پر اسی طرح کا ری ایکشن ہونا چاہیے۔ 
ایک نارمل ایشو کے لیے جتنےاحتجاج درکارہوں، اتنے اورمعقول احتجاج اگر ہوچکے ہوں تو کوئی ضروری نہیں کہ آپ احتجاجوں کی تمام تعداد آج ہی پوری دکھا ئیں اور اس احتجاجی سلسلے کو جاری رکھیں، آپ اپنی انرجی بچاکررکھیے،اللہ کرے حالات سنبھل جائیں،ـ جس کی بہت زیادہ امید نہیںـ تو زہے نصیب، ورنہ آگے بھی موقع ملیں گے۔ کیوں کہ اب ایسے ہی دن دیکھنے باقی رہ گئے ہیں۔ یہ ہماری بد زبانی نہیں بلکہ ماضی کا تلخ تجربات کی ٹھیس ہے۔ 
آج ہم اپنی پوری انرجی صرف ایک احتجاج پر صرف کردیں اور یہ سمجھنے لگیں کہ ہم نے غریب نواز کی محبت کا حق ادا کردیا ہے تو صاف طور پر یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہیے کہ غریب نواز کی محبت کا حق صرف غریب نواز کے ایک صریح گستاخ کوجواب دے کر ادا نہیں ہوگا بلکہ اسلام اور اسلامیات پر ہونے والے ہر حملے کاجواب دینا، غریب نواز کا ہی مشن ہے اور غریب نواز سے ہی محبت کی نشانی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ایک ایشو پر قابل اطمینان احتجاجوں کے بعد ہماری انرجی باقی رہے، تاکہ اس کا بوقت ضرورت استعمال  کیا جا سکے اور جو کچھ کرنا ضروری ہی سمجھتے ہوں، وہ سابقہ احتجاجوں کو انجام تک پہنچانے میں پہلے والوں کی مدد کریں۔  
*کام کو انجام تک پہنچائیں:۔*
جب  کسی احتجاج کوچھیڑ لیں تو پھر اسے انجام تک پہنچائیں، یہ ایمانی ذمہ داری بھی ہے اور دانش وری بھی اور در اصل یہی انجام احتجاجوں کے حاصل ہیں، ورنہ کاغذ کے چند مہذب ٹکڑے  اور وقتی طور پر جمع ہوئی بھیڑ، خوش فہمیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ 
اس موقع پر اس تلخ نوائی کے لیے معذرت چاہتا ہوں ۔اس بات کابارہا تلخ تجربہ  رہاہے کہ آج بہت سارے لوگ جس طرح جذباتی اندازمیں، رومیں بہہ کر ایک ایف آئی آر کی نقل کرتے ہوئے، جگہ جگہ ایف آئی آر کٹوارہےہیں، بہت ممکن ہے کہ کل انہیں لوگوں میں سے بہت سارے لوگ اس کو انجام تک نہ پہنچا پائیں اورکورٹ کچہریوں کے مسائل ان سے نہ نمٹ سکیں، اس لیے کہ یہہ کام جذبات کے نہیں، جولوگ جتنی تیزی کےساتھ جذبات میں آتےہیں، اتنی ہی تیزی کےساتھ ان کے جذبات سرد بھی پڑ جاتے ہیں، یہ کام صد فیصد سنجیدگی کے ہیں۔ اس لیے کسی بھی احتجاج کو چھیڑنے سے پہلے اس کے ماٰل پر خوب سنجیدگی سے غور کر لیں اور اگر اسے انجام تک پہنچانے کی ہمت ہو، تبھی اس میں کودیں۔ 
یہاں ہمت سے مراد یہ ہے کہ جب تک ظالم کو سزا نہ مل جائے، یا جب تک مظلوم کو اس کاقرار واقعی حق نہ مل جائے، تب تک  پیچھے نہ ہٹا جائے، اگرچہ اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے سالہا سال ہی کیوں نہ بیت جائیں۔  
*احتجاجوں میں نقالی نہیں، تنوع چاہی۔
 کسی ایک ایشو پر احتجاج کا ایک ہی طریقہ ہر جگہ کاپی نہیں ہونا چاہیے بلکہ کہیں ایف آئی آر  ہو چکی ہو تو اب دوسری جگہ میمورنڈم سے کام چلایا جا سکتا ہے، جبکہ تیسری اور چوتھی جگہ جلوس، یا پریس کانفرنس، یا ٹویٹر کیمپئن وغیرہ بھی ہونا چاہیے۔ اس تنوع کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ احتجاج کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور ظالم کی گھیرا بندی میں مضبوطی آتی ہے۔  (باقی)

0 تبصرے