اسلام میں مہمان نوازی کی اہمیت
تحریر : شمس عالم اویسی مصباحی
مہراج گنجوی متعلم جامعہ اشرفیہ مبارک پور
اللہ!!! مرے رزق کی برکت نہ چلی جائے
دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے۔۔
مہمان کے آنے پر استقبال کرنا ،اسے خوش آمدید کہنا، اس کی خاطر لذیذ کھانا تیار کرنا روز اول سے ہی دنیا کی تمام مہذب قوموں کا شعار رہا ہے ۔
ہر ملک، ہر قوم میں مہمان نوازی کے انداز و اطوار مختلف ضرور ہیں،لیکن اس بات میں کسی قوم کا اختلاف نہیں کہ آنے والے کا استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی اپنی حیثیت کے مطابق بڑھ چڑھ کر ہر ممکنہ خدمت سرانجام دینا اس کا بنیادی حق ہے ۔
اسی لیے ہر مہذب قوم کے نزدیک مہمان کی عزت و تکریم خود اپنی عزت و تکریم اور مہمان کی ذلت و توہین خود اپنی ذلت و توہین ہے ۔
لیکن پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مہمان نوازی کے اصول و قواعد ارشاد فرمائے اس کی مثال نہیں ملتی ۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من آمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه ،الضيافة ثلاثة ايام ،ومابعد ذلك فهو صدقة،ولا يحل له ان يثوي عنده حتى يحرجه.
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے ،مہما نی تین دن تین رات ہے ، جو اس کے بعد ہے وہ صدقہ ہے اور آنے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے یہاں تک کہ اس کو تنگی میں ڈال دے ۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔
حضرت سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مہمان کی ضیافت کا حکم فرمایا کرتے تھے ۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ اپنے مہمان کی حتی المقدور عزت و تکریم کریں،ان کو خوش آمدید کہیں، ان کے لئے لذیذ کھانا تیار کریں۔
بارگاہ رب العزت میں دعاگو ہوں کہ اللہ ہمیں اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرنے کی توفیق فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
.
شمس عالم اویسی مصباحی
مہرا ج گنجوی
متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ
0 تبصرے
شکریہ ہم تک پہنچ نے کے لیے