ناقل:رضوی شاہنواز مصباحی 

حاضر ہیں آپ کى خدمت میں
ایک_اور_عمده_فکر_کے_ساتھ

_ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ دُعا کی قبولیت کیلئے بہت جلدی مچاتے بلکہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! باتیں بناتے ہیں کہ ہم تو اتنے عرصے سے دُعائیں مانگ رہے ہیں ، بزرگوں سے بھی دُعائیں کرواتے رہے ہیں ، کوئی پیر فقیر نہیں چھوڑا، یہ وظائف پڑھتے ہیں ، وہ اَوراد پڑھتے ہیں ، فلاں فلاں مزار پر بھی گئے مگر ہماری حاجت پوری ہوتی ہی نہیں ، بلکہ بعض یہ بھی کہتے سنے جا تے ہیں : ’’ کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے !جس کی ہم کو سزامل رہی ہے!! ‘‘ نماز نہ پڑھنا تو گویا خطا ہی نہیں !!!: حیرت انگیز تو یہ ہے کہ اس طرح کی ’’ بھڑاس ‘‘ نکالنے والے بسا اوقات بے نمازی ہوتے ہیں ! گویا نماز نہ پڑھنا تو (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) کوئی گناہ ہی نہیں ہے! چہرہ دیکھو تو دُشمنانِ مصطَفٰے آتش پرستوں جیسایعنی تاجدارِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظیم سُنَّت داڑھی مُبارَک چہرے سے غائب ! نیز جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، وَعدہ خلافی ، بدگمانی، بدنگاہی، والدین کی نافرمانی ، فلمیں ڈِرامے، گانے باجے وغیرہ وغیرہ گناہ عادت میں شامل ہونے کے باوجود زَبان پر یہ اَلفاظِ شکوہ کھیل رہے ہوتے ہیں : ؎ ’’ کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے !جس کی ہم کو سزامل رہی ہے!! ‘‘ جس دوست کی بات ہم نہ مانیں : ذرا سوچئے توسہی !کوئی جِگری دَوست کئی بارکچھ کام بتائے مگر آپ اُس کا کام نہ کریں ۔اتفاق سے کبھی اُسی دَوست سے کام پڑجا ئے تو آپ پہلے ہی سہمے رہیں گے کہ میں نے تو اُس کا ایک بھی کام نہیں کیا، اب وہ بھلا میرا کام کیسے کرے گا! اگر آپ نے ہمت کرکے بات کی اور اُس نے کام نہ کیا تب بھی آپ شکوہ نہیں کرسکیں گے، کیوں کہ آپ نے بھی تو اپنے اُس دوست کا کام نہیں کیا تھا۔ اب ذرا ٹھنڈے دِل سے غور کیجئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے کتنے کتنے کام بتائے ، کیسے کیسے اَحکام جا ری فرمائے، مگرہم اُس کے کون کون سے حکم پر عمل کرتے ہیں؟غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ اُس کے کئی اَحکامات کی بجا آوَری میں ہم نے غفلت سے کام لیا ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکرے بات سمجھ میں آگئی ہو کہ خود تو اپنے پروَرْدگار عَزَّوَجَلَّکے حکموں پرعمل نہ کریں ، مگروہ کسی بات (یعنی دُعا) کا اثرظاہرنہ فرمائے توشکوہ و شکایت لے کر بیٹھ جا ئیں ۔ دیکھئے نا!آپ اگر اپنے کسی جگری دَوست کی کوئی بات بار بار ٹالتے رہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے دوستی ہی ختم کر دے ، لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّبندوں پر کس قدر مہربان ہے کہ لاکھ اُس کے فرمانِ عالی کی خلاف وَرزی کریں ، پھر بھی وہ اپنے بندوں کی فہرس سے خارِج نہیں کرتا، لطف وکرم فرماتا ہی رہتا ہے۔ذرا غور تو فرمائیے! جوبندے اِحسان فراموشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اگر وہ بھی بطورِ سزا اپنے اِحسانات ان سے روک لے توان کا کیا بنے ؟یقینا اُس کی عنایت کے بغیر بندہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھاسکتا، ارے! وہ اپنی عظیم الشان نعمت ہوا جو کہ بالکل مفت عطا فرما رکھی ہے اگرچند لمحوں کیلئے روک لے تو لاشوں کے اَنبار لگ جا ئیں !! قبولیت دُعا میں تاخیر کا ایک سبب: میرے بھائیو!بسا اَوقات قبولیت دُعا کی تاخیر میں کافی مصلحتیں ہوتی ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ حضور، سراپا نور، فیض گنجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ پرسرور ہے: جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کوئی پیارا دُعا کرتا ہے تو اللہ تَعَالٰی جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) سے ارشاد فرماتا ہے: ’’ ٹھہرو! ابھی نہ دو تاکہ پھر مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز پسند ہے۔ ‘‘ اور جب کوئی کافریا فاسق دُعا کرتا ہے ، فرماتا ہے، ’’ اے جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) ! اِس کاکام جلدی کردو، تاکہ پھر نہ مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز مکروہ (یعنی ناپسند ) ہے۔ ‘‘ (کَنْزُ الْعُمّال ج۲ص۳۹حدیث۳۲۶۱، اَحْسَنُ الْوِعَاء ص۹۹) نیک بندے کی دعا قبول ہونے میں تاخیر کی حکمت (حکایت) : حضرت سَیِّدُنا یَحْیٰ بن سعید بن قطان(عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان) نے اللہ عَزَّوَجَلَّکا کو خواب میں دیکھا، عرض کی: اِلٰہیعَزَّوَجَلَّ!میں اکثر دُعا کرتا ہوں اور تو قبول نہیں فرماتا؟حکم ہوا: ’’ اے یَحْیٰ! میں تیری آواز کو پسند کرتا ہوں ، اِس واسطے تیری دُعا کی قبولیت میں تاخیر کرتا ہوں ۔ ‘‘ (رسالہ قُشریہ ص۲۹۷، اَحْسَنُ الْوِعَاء ص۹۹) ’’ فضائلِ دعا ‘‘ صفحہ97 میں آدابِ دُعا بیان کرتے ہوئے حضرتِ رئیسُ الْمُتَکَلِّمِین مولانانقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : جلدی مچانے والے کی دُعا قبول نہیں ہوتی!: (دعا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ) دُعا کے قبول میں جلدی نہ کرے۔ حدیث شریف میں ہے کہ خدائے تعالیٰ تین آدمیوں کی دُعا قبول نہیں کرتا۔ایک وہ کہ گناہ کی دُعامانگے۔دوسرا وہ کہ ایسی بات چاہے کہ قطع رِحم ہو۔تیسرا وہ کہ قبول میں جلدی کرے کہ میں نے دُعا مانگی اب تک قبول نہیں ہوئی۔ ( مسلم ص۱۴۶۳حدیث۲۷۳۵) اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ناجا ئز کام کی دُعا نہ مانگی جا ئے کہ وہ قبول نہیں ہوتی۔نیز کسی رِشتے دار کا حق ضائع ہوتا ہوایسیدُعا بھی نہ مانگیں اور دُعاکی قبولیت کیلئے جلدی بھی نہ کریں ورنہ دُعا قبول نہیں کی جا ئے گی۔ اَحسَنُ الْوِعَاءِ لِاٰدابِ الدُّعاءِپر اعلٰی حضرت ، امامِ اَہلِ سُنَّت ، مو لانا شاہ احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننے حاشیہ تحریر فرمایا ہے اور اس کا نام ذَیلُ الْمُدَّعاءِ لِاَحسَن الْوِعاءِ رکھا ہے ۔ مکتبۃُ المدینہ نے تخریج و تسہیل کے ساتھ اِسے ’’ فضائلِ دعا ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔اسی کتاب کے حاشیے میں ایک مقام پر دُعا کی قبولیت میں جلدی مچانے والوں کو اپنے مخصوص اور نہایت ہی علمی انداز میں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ اَفسروں کے پاس تو بار بار دھکے کھاتے ہو مگر۔۔۔ سگانِ دُنیا (یعنی دُنیوی اَفسروں ) کے اُمیدواروں (یعنی اُن سے کام نکلوانے کے آرزو مندوں ) کو دیکھا جا تا ہے کہ تین تین برس تک اُمیدواری (اور انتظار) میں گزارتے ہیں ، صبح وشام اُن کے دروازوں پر دَوڑتے ہیں ، (دَھکے کھاتے ہیں ) اور وہ (اَفسران) ہیں کہ رُخ نہیں ملاتے، جواب نہیں دیتے، جھڑکتے، دِل تنگ ہوتے، ناک بھوں چڑھاتے ہیں ، اُمیدواری میں لگایا تو بیگار(بے کار محنت) سرپرڈالی، یہ حضرت گرہ (یعنی اُمید وار جیب ) سے کھاتے، گھر سے منگاتے، بیکار بیگار (فضول محنت) کی بلا اُٹھاتے ہیں ، اور وہاں ( یعنی افسروں کے پاس دھکے کھانے میں ) برسوں گزریں ہنوز (یعنی ابھی تک گویا) روزِ اوّل(ہی) ہے، مگر یہ( دنیوی افسروں کے پاس دھکے کھانے والے ) نہ اُمیدتوڑَیں ، نہ (افسروں کا ) پیچھا چھوڑَیں ۔ اور اَحْکَمُ الْحَاکِمِین، اَکْرَمُ الْاَکْرَمِیْن عَزَّ جَلَالُہٗکے دروازے پراَوّل تَو آتا ہی کون ہے! اور آئے بھی تو اُکتاتے ، گھبراتے ، کل کا ہوتا آج ہوجا ئے، ایک ہفتہ کچھ پڑھتے گزرا اور شکایت ہونے لگی، صاحب! پڑھا تو تھا، کچھ اَثر نہ ہوا!یہ اَحمق اپنے لئے اِجا بَت (یعنی قبولیت ) کا دروازہ خود بند کرلیتے ہیں ۔ مُحمَّد رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : یُسْتَجا بُ لِاَحَدِ کُمْ مَا لَمْ یَعْجَلْ، یَقُوْلُ: دَعَوْتُ فَلَمْ یُسْتَجَبْ لِیْ۔ ترجمہ: ’’ تمہاری دُعا قبول ہوتی ہے جب تک جلدی نہ کرو یہ مت کہوکہ میں نے دُعا کی تھی قبول نہ ہوئی۔ ‘‘ (بُخاری ج۴ص۲۰۰حدیث۶۳۴۰) بعض تَواِس پر ایسے جا مے سے باہر(یعنی بے قابو ) ہوجا تے ہیں کہ اَعمال واَدعیہ (یعنی اَوراد و دُعاؤں) کے اَثر سے بے اِعتقاد ، بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے وَعدئہ کرم سے بے اِ عتماد، وَالْعِیَاذُ بِاللہ الْکَرِیْمِ الْجَوَاد۔ ایسوں سے کہاجا ئے کہ اَے بے حیا!بے شرمو!!ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈالو۔اگر کوئی تمہارا برابر والا دَوست تم سے ہزار بار کچھ کام اپنے کہے اورتم اُس کا ایک کام نہ کروتو اپنا کام اُس سے کہتے ہوئے اَوّل تَو آپ لجا ؤ (شرماؤ) گے، (کہ) ہم نے تواُس کا کہنا کیا ہی نہیں اب کس منہ سے اُس سے کام کو کہیں ؟اور اگر غرض دِیوانی ہوتی ہے(یعنی مطلب پڑا تو) کہہ بھی دیا اور اُس نے (اگر تمہاراکام) نہ کیا تواصلاً محل شکایت نہ جا نو گے( یعنی اس بات پر شکایت کروگے ہی نہیں ظاہر ہے خود ہی سمجھتے ہو) کہ ہم نے (اُس کاکام ) کب کیا تھا جو وہ کرتا۔ اب جا نچو، کہ تم مالِک عَلَی الْاِطْلَاق عَزَّ جَلَالُہٗ کے کتنے اَحکام بجا لاتے ہو؟ اُس کے حکم بجا نہ لانا اور اپنی دَرخواست کا خواہی نخواہی (ہرصورت میں ) قبول چاہنا کیسی بے حیائی ہے! او اَحمَق! پھرفرق دیکھ ! اپنے سر سے پاؤں تک نظر غور کر! ایک ایک رُوئیں میں ہر وَقت ہر آن کتنی کتنی ہزار دَر ہزار دَر ہزار صَد ہزار بے شمارنعمتیں ہیں ۔تو سوتا ہے اور اُس کے معصوم بندے (یعنی فرشتے) تیری حفاظت کو پہرا دے رہے ہیں ، تو گناہ کررہا ہے اور (پھربھی) سرسے پاؤں تک صحت و عافیت، بلاؤں سے حفاظت ، کھانے کا ہضم ، فضلات (یعنی جسم کے اندر کی گندگیوں ) کا دَفع ، خون کی رَوانی ، اَعضا میں طاقت، آنکھوں میں روشنی ۔ بے حساب کرم بے مانگے بے چاہے تجھ پر اُتر رہے ہیں ۔ پھر اگر تیری بعض خواہشیں عطا نہ ہوں ، کس منہ سے شکایت کرتا ہے ؟ تو کیا جا نے کہ تیرے لئے بھلائی کا ہے میں ہے!تو کیا جا نے کیسی سخت بلاآنے والی تھی کہ اِس (بظاہرنہ قبول ہونے والی ) دُعا نے دَفْعْ کی ، تو کیا جا نے کہ اِس دُعا کے عوض کیسا ثواب تیرے لئے ذَخیرہ ہورہا ہے ، اُس کا وَعدہ سچا ہے اور قبول کی یہ تینوں صورتیں ہیں جن میں ہر پہلی، پچھلی سے اعلٰی ہے۔ ہاں ، بے اِعتقادی آئی تویقین جا ن کہ ماراگیااور اِبلیسِ لعین نے تجھے اپنا ساکر لیا۔ وَالْعِیَاذُ بِاللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی ( اور اللہ کی پناہ وہ پاک ہے اورعظمت والا) ۔ اَے ذَلیل خاک! اے آبِ ناپاک!اپنا منہ دیکھ اور اِس عظیم شرف پر غور کر کہ اپنی بارگاہ میں حاضر ہونے ، اپنا پاک، متعالی (یعنی بلند) نام لینے، اپنی طرف منہ کرنے، اپنے پکارنے کی تجھے اجا زت دیتا ہے۔ لاکھوں مرادیں اِس فضل عظیم پر نثار۔ اوبے صبرے! ذرابھیک مانگنا سیکھ۔اِس آستانِ رَفیع کی خاک پر لَوٹ جا ۔ اور لپٹا رہ اور ٹکٹکی بندھی رکھ کہ اب دیتے ہیں ، اب دیتے ہیں !بلکہ پکارنے ، اُس سے مناجا ت کرنے کی لذت میں ایسا ڈوب جا کہ اِرادہ ومراد کچھ یاد نہ رہے، یقین جا ن کہ اِس دروازے سے ہرگز محروم نہ پھریگا کہ مَنْ دَقَّ بَابَ الْکَرِیْم انْفَتَحَ (جس نے کریم کے دروازے پر دستک دی تو وہ اس پر کھل گیا) وَبِا للّٰہِِ التَّوْفِیْقُ (اور توفیق اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے ہے)  ۔( فضائلِ دُعا ص۱۰۰ تا ۱۰۴ (ماخذ" فیضان سنت" دعوت اسلامى ) ۔رضوى شاہنواز مصباحى۔

0 تبصرے